تحریر:اصغر عمر
پاکستان کے سینئر صحافی اور صحافت کی آبرو، نادر شاہ عادل یہ دنیا چھوڑ گئے، وہ شاید اس دنیا کے آدمی ہی نہیں تھے، اسلیے دنیا نے انہیں اور انھوں نے دنیا کو قبول نہیں کیا، وہ دنیا سے کچھ لینے کے قائل لنہیں تھے، ہمیشہ معاشرے کو کچھ نہ کچھ دیتے رہے، لیاری میں پیدا ہوئے اور لیاری ان کے خون میں رہی، بینک دولت پاکستان کی ضمانت انہیں درکار ہی نہیں تھی، اخلاق،مروت،وضع داری، شفقت جو بھی انسانی خوبیاں کہلائی جاتی ہیں وہ نادر شاہ عادل میں بکمال موجود تھیں، یہی انکی دولت تھی،شاہ جی اصل میں ایک استاد تھے، جس ادارے میں رہے، جس حال میں رہے ساتھیوں کو سکھاتے رہے،ملازمت سے فارغ ہو کر گھر پہنچتے تو علاقے کے بچوں کو پڑھانے میں جت جاتے،ایکسپریس میں ان سے نیاز مندی رہی، ایکسپریس کے ذکر کے ساتھ طاہر نجمی صاحب کا نام نہ آئے یہ ممکن نہیں، نجمی صاحب اخبار کے ایڈیٹر تھے اور نادر شاہ ایڈیٹوریل صفحات کے، لیکن نجمی صاحب نے کبھی یہ احساس نہیں دلایا، کبھی شاہ جی کے کام میں مداخلت نہیں کی، شاہ جی کے کردار کی طاقت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ ادارے کے مالک سلطان لاکھانی نے کبھی ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کی بلکہ لیاری کے حالات ابتر ہونے کی صورت میں انہیں بہترین متبادل کی پیشکش کی ، نادر شاہ عادل کبھی اور کہیں ناقابل ذکر نہیں رہے، سلطان لاکھانی جانتے تھے کہ نادر شاہ عادل کبھی اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کرینگے اسلیے وہ خود انکے بارے میں پوچھتے رہتے تھے، شاہ جی کا انتقال کراچی کی کہکشاں کا مدھم ہونا ہے۔