اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کر نے بارے جاری تحریری فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مزید وقت دینے کی بات الیکشن کمیشن نے کی،جس کے باعث پی ٹی آئی کو نشان الاٹ نہ ہوسکا۔ اس کے علاوہ 2 ہائیکورٹس میں درخواستیں اب بھی زیر التوا ہیں، الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے۔جاری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ای سی پی کا آرڈر پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج ہوا، پشاور ہائیکورٹ نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا کہ نشان الاٹ کیا جائے، وہاں انٹرا کورٹ اپیل فائل ہوئی، الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی کو 2021 سے انٹرا پارٹی کا کہتا رہا۔سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی ، جاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک الیکشن کروانے کا حکم دیاتھا۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو نشانہ نہیں بنایا، الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف 14 شکایات موصول ہوئیں تھیں۔سپریم کورٹ کے جاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ درست الیکشن کا انعقاد نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا ہے ، الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔انٹرا پارٹی الیکشن میں تمام ممبران کو برابری کا حصہ ملنا چاہیے تھا، تحریک انصاف نے پارٹی کے شفاف انتخابات کے شواہد پیش نہیں کیے ، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کا کام ہے قانون کے مطابق کام کرے اور پارٹی انتخابات کرائے۔کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں۔چیف جسٹس نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ معافی چاہتاہوں فیصلہ سنانے میں تاخیر ہوئی، یہ ایک میڈیم سائیز آرڈرہے، پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن نے 24 نومبر کو انتخابات کا نوٹس جاری کیاتھا۔قبل ازیں سماعت مکمل ہونے کے بعد 3رکنی بینچ کمرہ عدالت سے روانہ ہو گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اپنے ججز کے ساتھ مشاورت کے بعد آکر بتائیں گے۔ دونوں جانب سے اچھے دلائل دئیے گئے، دلائل جذب کرنے اور نتیجے تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں علم ہے کہ آج آخری دن ہے،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آرڈر بھی دینا ہے، چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے استفسار کیا کہ پشاور ہائیکورٹ کا حکمنامہ آ گیا ہے؟ آپ نے اسے پڑھ لیا ہے۔علی ظفر کا کہنا تھا کہ میں نے پشاور ہائیکورٹ کا حکمنامہ پڑھ لیاہے،وکیل کا کہنا تھا کہ 8فر یقین کی نمائندگی کررہا ہوں،دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا جائزہ لینے اور کالعدم قراردینے کاالیکشن کمیشن کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں کہ وہ بے ضابطگی کا الزام لگاکرنشان الاٹ نہ کرے، دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت ایک نشان پر آئین کے مطابق الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور سیاسی جماعت کو نشان الاٹ نہ کرنا آئین کی شق 17/2 کی خلاف ورزی ہے نہ ہی الیکشن کمیشن کورٹ آف لا ہے۔وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا،آرٹیکل 17 دو طرح سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے۔انتخابات نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے۔وکیل نے کہاکہ میری گزارش سیاسی پارٹی کی بنیادی حقوق سے متعلق بھی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے،الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے، انہو ں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، پی ٹی آئی سے جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا