ابھی تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل(6جمادی الاولی 1445ھ،21نومبر 2023ءبروز منگل)آپ کے والد صاحب حضرت اقدس مولانا عبدالمعبود صاحب رح (پیدائش 1936ء) کا انتقال ہوا،اپنے والد صاحب حضرت اقدس مولانا عبدالمعبود صاحب رح کے جنازہ کے موقع پر بیان کیا،بڑے دکھی تھے،بچوں کی طرح بلک بلک کے رو رہے تھے،فراقِ پدری میں نینوں سےغم کی جھڑیاں برس رہی تھیں،مگر صبروہمت،جرأت واستقامت کا استعارہ بنے کھڑے تھے،کارکن اگلی صفوں میں آنے کے لئے زور لگا رہے تھے،جس سے نظم متاثرہورہاتھا تو اسپیکر میں فرمایا:آپ نظم وضبط کا مظاہرہ کریں،صفوں میں رہیں،صفوں کی درستگی کی خاطر میں نے عصر کے بعد خود اپنے ہاتھوں سے چونے سے صفیں لگائی ہیں ،علماء کرام کا جم غفیر شریک جنازہ تھا،ہر ایک سے ملتے،دکھتے کچھ ثانیے رکتے اورپھر اگلے دوست کےگلے لگتے۔
فرمایا:سفرپہ جاتا تو والد صاحب سے ملتا،اجازت لیتا،والد صاحب سر بدن پہ ہاتھ پھیرتے،دعا دیتے اور الوداع کرتے،اب کون ہے جو یہ دعائیں دے گا،اب یقیناً
لا تَف٘تِنّا بَعْدَہ
کی تاثیروتفسیر اپنا اثر دکھارہی ہے،جب دعاؤں کے سائباں اٹھ جائیں تو قدم ڈگمگا جاتے ہیں،سنبھلنا بھی چاہیں تو تقدیر کی گہرائیاں ساتھ نہیں دیتیں،جب شفقتوں کی گھنگھور گھٹائیں گم ہو جائیں،تو آفتاب کی چلچلاتی شعائیں آہنی بدنوں کوبھی جھلسادیتی ہیں،جب آہ سحر گاہی کےمضبوط حصار ٹوٹ جائیں تو آندھیاں زور کر جاتی ہیں۔پھر فرمایا!جب گھر آتا تووالد صاحب دوباتیں پوچھتے،نماز پڑھی ہے،کھانا کھایاہے۔ اور فرمایا!والد صاحب نے نماز فجر کے بعد سورہ یس پڑھی اور ذکر کرتے ہوئے میرے ہاتھوں میں جان دی۔ دبنگ تھے،بے باک اور نڈر تھے،اپنے موقف اور نظریہ پہ چٹان بلکہ چٹان سے بھی زیادہ مضبوط تھے۔جوشیلے تھے،غصیلے تھے،آپ کے والد مکرم آپ کے بارہ میں لکھتے ہیں!
،،مسعود الرحمن کی ولادت 1969 میں ہوئی۔۔چونکہ مسعود الرحمن کا تعلق سپاہ صحابہ رض سے تھا،تقریر جوشیلی کرتا،اورلوگوں کو برانگیختہ کرتا تھا،پشاور میں شیعہ سنی فسادہوا،۔۔۔۔مسعودالرحمن پربھی قتل کا الزام لگا،جیل گیا،مگرعدالت نےبحمداللہ!بالکل بے قصور قرار دے کربری کردیا،،۔
آگے اولاد کے بارہ میں لکھتے ہیں!
اللہ تعالیٰ نے مسعود الرحمن کوچاربیٹےاورایک بیٹی عطا کی ہے،حسنین معاویہ،محمدعثمان علی،محمداسامہ ،عائشہ اورمحمدانس۔(نقوش زندگی،182)
مجھے یاد ہے کہ جب مولانا اعظم طارق رح کی 2003 شہادت ہوئی تھی تو بہت غمگین تھے،اور اپنی گاڑی پہ چند کارکنوں کے ہمراہ اس بات پہ مصر تھے کہ ہم نے مولانا شہید رح کا جنازہ پارلیمنٹ کےبلکل سامنے پڑھانا ہے،جبکہ دیگرقیادت پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک پہ جمع تھی، اور اسی جگہ اشارہ کے پاس جنازہ ہوا۔
جنازہ سے حضرت اقدس پیرمولانا عزیز الرحمن ہزاروی رح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا!
میں نے خواب دیکھا ہے کہ ،،امی سیدہ عائشہ صدیقہ انتظارمیں کھڑی ہیں،میں نے پوچھا!امی جان!کس کے انتظار میں کھڑی ہیں،فرمایا!میرا بیٹا اعظم طارق آرہاہے،اس کے انتظارمیں کھڑی ہوں،،۔
أج یقیناً ماں جی رض کے والد محترم سیدنا صدیق اکبر رض اپنے بیٹے کے انتظارمیں کھڑے ہوں گے،جن کی ناموس کی خاطرآپ نےاپنی جان،جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
باپ بیٹے دونوں کی تاریخ شہادت بھی ایک ہی ہوگئی،یعنی 22جمادی الاخری
اللہم اجعل آخرتہ خیرامن الاولی۔
ایک تاریخ بھی تو آگے پیچھے نہیں ہونے دی۔
مولانا اعظم طارق شہیدرح سےآپ کوکئی مشابہتیں ہیں،دونوں دارالحکومت میں شہید ہوئے،دونوں نے گاڑی میں، اگلی سیٹ پہ جامِ شہادت نوش فرمایا،دونوں کو دن دیہاڑے شہید کیا گیا،دونوں اسلام آباد کی معروف جگہ اور مصروف چوک میں شہید کیا گیا۔دونوں رنگ حلیے میں مشابہ،دونوں عمر میں تقریباً ہمعمر،دونوں دبنگ اورنڈر،دونوں نے قیدوبند کی بےتحاشا سختیاں جھیلیں، دونوں نے ہتھکڑیوں اوربیڑیوں کوچوما،دونوں کوجیلیں
اور تکلیفیں ان کے عزم مصمم سے متزلزل نہ کرسکیں،
دونوں کواللہ تعالی نے جماعت میں غیر معمولی مقبولیت دی،دونوں کو مشن سے والہانہ عشق تھا،دونوں کے لب ولہجہ میں ایک جیسی کڑک تھی،دونوں کا اندازِ خطابت ایک طرح کا تھا،دونوں کا جنازہ G6 اسلام آباد سےاٹھا، ،ایک کا لال مسجد سے اوراب ایک کا لال مسجد کےجوار رحمانی مسجدسے،دونوں کا جنازہ پہلے پارلیمنٹ کےسامنے پڑھانے کا فیصلہ ہوا۔دونوں کواپنےقائد جھنگوی رح سے محبت ہی نہیں عشق تھا۔
مولانا اعظم طارق رح کے جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے محترم خادم حسین ڈھلوں نے فرمایا!
،،ہمارے ہاں عہدوں اور مناصب کی تمنا نہیں،بلکہ ہمارے ہاں معیاردیکھیں! کہ جب مولانا ضیاء الرحمن فاروقی شہید رح کی شہادت کے بعد جماعت کے نئے راہنماکا تعین کرنا تھا، تو دونام سامنے آئے،مولانا اعظم طارق شہید رح
اور مولانا محمد احمدلدھیانوی رح،دونوں نے کہا!کہ ہم میں سے جس کو چاہیں جماعت کا سربراہ بنائیں لیکن ہم دونوں کی ایک ہی شرط ہے:
،،ہم دونوں میں سے جو بھی شہید ہوگا،اسے ہمارے قائد
مولانا حق نواز جھنگوی شہید رح کے پہلو میں دفن کیا جائےگا،،۔
اور اب صورتِ حال یہ ہے!
مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا۔
گزشتہ کئی دنوں سے سیدنا ابوبکر صدیق رض کے یوم وفات پہ ہونے والے جلوس اور ریلیوں کے انتظامات کے حوالے سے میٹنگز کی صدارت کررہے تھے اور انتظامات کے لئے متحرک نظر آرہے تھے،آج بھی شہادت سے کچھ گھنٹے قبل بعد نماز جمعہ
سیدنا صدیق اکبر رض کی وفات کے سلسلہ میں نکلنے والے جلوس کی قیادت کررہے تھے،اور آخر میں دعا فرمائی:
،،اے اللہ!زندگی سعادت کی اور موت شہادت کی،،۔
اور دعا میں شہادت کی موت کی دعاوتمںاکی، ،کیا دلسوزی اورکیسی دلدووزی سے دعاکی کہ دعافوراًمقبول بارگاہ ایزدی ہوکر پلٹی کہ گھر بھی نہ پلٹے کہ دعا پہ عمل بھی ہوگیا۔
دعاجونکلی تھی دل سےاک دن
پلٹ کے مقبول ہو کے آئی
اور گزشتہ کل بروز جمعرات کو بھی ڈی چوک کے قریب نکلنے والے جلوس کی قیادت فرمائی۔اس وقت پورے ملک میں،اور پوری جماعت میں نظریاتی اور تحریکی اعتبار سے،
آپ ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔
گزشتہ رمضان میں ختم قرآن کریم کے موقع پہ مسجد،،حسین بن علی رض،،میں برادرم مولانا مفتی اسرار صاحب کی طرف سے راقم مدعو تھا،حضرت عثمانی صاحب رح اس
مسجد میں معتکف تھے،اپنےبچےکے سلسلہ میں پریشان تھے
پوچھ رہے تھے کہ تجوید کے لئے کون سی اچھی جگہ ہے؟میں چاہتا ہوں کہ وہ عالم بھی بنے لیکن اس طرف سے ڈھیلا ہے،میں نے کچھ گذارشات آپ کے سامنے رکھیں،بہت خوش ہوئے اور انہیں پسند کیا،اللہ کرے کہ آپ کے بچے أپ کےاور دادا مرحوم کے بہترین جانشین بنیں،اپنے والد مکرم کی خواہش کی لاج رکھیں،اپنے دادا حضوررح کے تقوی وطہارت،تدین اور ان کی عالی نسبتوں کے امیں ہوں۔
اللہم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنابعدہ۔
ابھی چند دن پہلے ایک ساتھی مولانا یاسر قاسمی صاحب سے میں نے گزارش کی کہ حضرت عثمانی صاحب سے کہیں کہ اپنے والد محترم مولانا عبدالمعبود صاحب رح کی سوانح پہ کام شروع کریں اور مولانا کو دیکھنے والی اور ملنے والی جو بڑی شخصیات ابھی بقید حیات ہیں،ان سے باقاعدہ مضامین لکھوا لیں،اورمولانا عبدالقیوم حقانی صاحب حفظہ اللہ سے ماہنامہ،،القاسم،،کا خاص نمبر والد صاحب کے نام سے نکلوائیں۔
آہ!کیا معلوم تھا کہ والد بزرگوارکی سوانح سےقبل ہی ان کی قبرکےبرابر قبر نصیب ہوگی،اور عظیم ولی،بڑی نسبتوں کے امین اپنے والد بزرگوار کے اقدام مبارکہ میں پرسکوں نیندنصیب ہوگی۔ اور ان کے نقوشِ زندگی(حضرت مولانا عبدالمعبود صاحب رح کی خود نوشت سوانح حیات)کے ساتھ ساتھ حضرت عثمانی رح کا بھی خصوصی نقش حیات تحریر کرنا پڑجائےگا۔
اے کاش:یہ جماعت اپنے جلسے جلوسوں پہ زرکثیر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قائدین کی حفاظت کےلئے قدرِ قلیل مہیا کرلیتی تواس قدر،بے دردی،بے بسی اور کسمپرسی سےاپنے ان عظیم لیڈروں سے محروم نہ ہوتی۔اور آج قیادت کے بحران اور سرِراہ انگشت بدندان سرگردان نہ ہوتی۔
ذرا سوچیں ،نظریں دوڑائیں کہ آج اگر،حضرت جھنگوی،حضرت قاسمی،حضرت فاروقی،حضرت اعظم طارق،حضرت حیدری رحمہم اللہ ،اور قائدین کی ایک بڑی تعداد بقید حیات ہوتی تو یہ جماعت کن رفعتوں اور بلندیوں کو چوم رہی ہوتی،ان کا رعب اور دبدبہ
کس قدر چھایا ہوتا۔ان کے وژن میں وزن اور ان کے موقف میں کس قدر طاقت ہوتی۔
اے کاش:اے وارثانِ قوم شہیداں!اے مالکِ خونِ ارزاں!
اپنے قافلے کے بچے کھچے فرزندان،اسرارِتنویر کے قدردان،
اپنی قیادت کی حفاظت کا بخداسامان،وگرنہ الحفیظ الامان
مشن اور وژن ہیروز کےبل بوتے پہ پروان چڑھتی اور ان کی تازہ بہ تازہ ولولوں سے آگے بڑھتی ہیں،جماعتوں سی ہیروز چھن جائیں تو مشن دفن ہوجاتے ہیں اور کارکنوں کے ولولے مٹ جاتے ہیں،پھر آہیں اور یادیں ہی تاریخ کا مقدر ہوتی ہیں،راستےسے مضبوط فکری چٹانیں ہٹ جائیں تو کارکن
معاشرے کی افواہوں کا رکن بن جاتے ہیں
22جمادی الاخری 1445ھ
5جنوری 2024ءکو شہید ہوئے
تدفین! بروز ہفتہ،23 جمادی الثانیہ 1445ھ
06 جنوری2023ء،24 پوہ2080ب
ہرطرف خزاں کا موسم ہے،بہاریں روٹھ چکی ہیں،رخ ورخسار کملا گئے ہیں،بلبلیں گم سم تو طیورخوشگلو پرغم،اداسیوں کے ڈیرے ہیں،دلوں پہ لہراتے غموں کے پھریرے ہیں،شاخ شاخ پہ زردیاں ہیں،شجرشجر پہ خاکستری وردیاں ہیں اور ایسے میں تم بھی روٹھ گئے۔۔
وہ زرد موسموں میں جو ہم سے بچھڑ گئے
بچھڑے کچھ اس ادا سے کہ لحد میں اتر گئے
نظریں ہیں بے قرار انہیں کی تلاش میں
جھنگویؒ مزاج لوگ نہ جانے کدھر گئے
مدحت جو صحابہؓ کی کرتے تھے ناز سے
شاید اسی لئےوہ مبارک لہو میں نکھرگئے
اللہم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنابعدہ
ابھی 2بجے آبپارہ چوک میں شہید کا جنازہ ہے۔
آپ کے والد مرحوم رح نے اپنی خود نوشت سوانح عمری کی ابتداء میں یہ دو شعر لکھے ہیں!
وہ عمربھرکےلئے۔ اتنا کام چھوڑ گئے
بیاضِ دھر پہ بس اپنا نام چھوڑ گئے
اور میں نےلیاداغِ دل،کھوکے بہارِ زندگی
اک گلِ ترکے واسطے میں نے چمن لٹادیا۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔۔۔