اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)اسلام آباد ہائیکورٹ 2023 میں سیاسی مقدمات کیلئے مقناطیس بنا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں آٹھ جبکہ ضلع عدالتوں میں 80 کے قریب ججزتعینات ہیں، اس کے باوجود زیرِ التوا مقدمات کی تعداد میں رواں سال مزید اضافہ ہوا ہے۔روان سال سابق صدور سے لے کر سابق وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، سیاسی رہنماوں سمیت سب نے ہی ہائیکورٹ یاترا کی۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اشرافیہ کو عوام پر فوقیت دی گئی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ 2023 میں سیاسی مقدمات کے حوالے سے سرفہرست رہا ہے اور یہاں سے تمام جماعتوں کو ہی ریلیف ملا، اگر کسی کی شنوائی نہیں ہوئی تو وہ تھے عوامی مقدمات۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2023 کے آغاز پر زیرالتوا کیسز کی تعداد 17 ہزار 54 تھی جو بڑھ کر ساڑھے 18 ہزار سے زائد ہوچکی ہے، جبکہ مقامی عدالتوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 ہزار سے زائد زیر التوا مقدمات ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ کو سیاسی مقدمات کا مقناطیس کہا جائے توغلط نہ ہوگا، ملک اور جماعتوں کے سب ہی بڑوں نے اس ہائیکورٹ کے در پر حاضری دی، کہیں ریلیف تو کسی مقدمے میں ناانصافی اور جانبداری کی سدا سنائی دیتی رہی۔سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے ہوئی۔ٹیئریان وائٹ، شیریں مزاری، تھری ایم پی او، لاپتہ بلوچ طلبا، توشہ خانہ، 190 ملین پاونڈ سمیت درجنوں سیاسی مقامات عوامی و فوجداری کیسز پر حاوی رہے۔قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ سائل کو سائل سمجھا جانا چاہیے لیکن اشرافیہ کو عوام پر فوقیت دی جاتی رہی۔2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ جی 10 سے جی 5 کی نئی عمارت میں منتقل ہوئی لیکن کازلسٹ کی ترجیحات و تبدیلی کی روایت نئی عمارت بھی نہ بدل سکی، سیاسی مقدمات یہاں بھی حاوی رہے۔سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ پر عدم اعتماد کیا، تو نواز شریف نیب ریفرنس میں بری ہوئے۔قانونی ماہرین کہتے ہیں انصاف کا ترازو مقدمات کی نوعیت، شخصیات اور نامور وکلا کے ساتھ ہی اپنا وزن کھوجاتا ہے۔عدالت عدلیہ میں فی جج 2 ہزار 300 جبکہ مقامی عدالتوں میں فی جج 6 سو 25 کیسز کا بوجھ اپنے سر اٹھائے ہوئے ہے۔