کراچی (نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز ”سندھی ادب و زبان کے مشاہیر“ پر منعقدہ سیشن سے معروف سندھی ادیبوں دانشوروں نے خطاب کیا۔ سیشن میں مرزا قلیچ بیگ اور دیوان جیٹھا مل پر ایوب شیخ نے گفتگو کی ، جی ایم سید کے متعلق ناز سہتو نے اظہارِ خیال کیا، حیدر بخش جتوئی اور شاہ محمد پیرزادہ پر شاہ محمد پیرزادو نے گفتگو کی، عثمان ڈیپلائی اور گل حسن کلمتی پر ڈاکٹر امجد سراج نے، پیر حسام الدین راشدی اور حمیدہ کھوڑو سے متعلق مہتاب اکبر راشدی نے گفتگو کی، سراج الحق میمن اور ابراہیم جویو پر نورالہدیٰ شاہ نے جبکہ ایم ایچ پنہوراور رسول بخش پلیجو کے متعلق جامی چانڈیو نے گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض ممتاز بخاری نے ادا کیے۔ صدارتی خطبہ میں مظہر جمیل نے کہا کہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر سندھی ادب اور زبان پر اس طرح کا بھرپور سیشن کرانے پر آرٹس کونسل کا شکریہ ادا کرتا ہوں جدید سندھی ادب نے ایک صدی کے دوران بہت ترقی کی ہے مختصر عرصے میں پسماندہ زبان سے جدید ترقی پسند زبان بن گئی ہے۔نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد سندھ کی تاریخ کو دفن کرنے کی کوشش کی گئی لیکن سراج الحق میمن، ابراہیم جویو اور غلام مصطفی شاہ جیسی شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔ سراج الحق میمن نے ناول کے ذریعے سندھ کی تاریخ کو اجاگر کیا، مہتاب اکبر راشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیر حسام الدین راشدی نے سندھی ادب کے ساتھ اردو ادب کے لیے بھی بہت خدمات سر انجام دی ہیں۔ انجمن ترقی اردو سندھیالوجی، اقبال اکیڈمی ،اردو ڈکشنری بورڈ سمیت اہم ادارے بنوانے میں کردار ادا کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اتنے عظیم انسانوں کے بارے میں مختصر وقت میں گفتگو نا ممکن ہے۔ ڈاکٹر ایوب شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرزا قلیچ بیگ نے مشرق اور مغرب کی ثقافت کو ملانے میں اہم کردار ادا کیا ، مرزا قلیچ بیگ نے آسان سندھی استعمال کی ، ان کی ایک سو سے زائد کتابیں سندھی ادبی بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جبکہ دیارام جیٹھامل کا سب سے بڑا کارنامہ ڈی جے کالج ہے جہاں سے اس ملک کے سات وزیر اعظم پڑھ کر نکلے ، ناز سہتو نے کہا کہ جی ایم سید کے بارے میں ایسی کہانیاں گھڑی گئی ہیں کہ جن کا جی ایم سید سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ اختیارات کی مرکزیت کے خلاف تھے انہوں نے سندھ یونیورسٹی سندھی ادبی بورڈ، سندھی لغت بورڈ بنائے ، علم و ادب میں ریسرچ کو اہمیت دی۔ شاہ محمد پیرزادو نے کہا حیدر بخش جتوئی ویسے تو سرکاری ملازم تھے مگر ڈپٹی کلکٹر بھی تھے ان کی نظم جئے سندھ سے دستبرداری نہ ہونے کی صورت میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے ہٹایا گیا تو انہوں نے سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کسانوں کے حقوق کی جدوجہد شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ سندھی ادب پر شیخ ایاز کی چھاپ اب تک برقرار ہے، جدید سندھی ادب شیخ ایاز کی چھاپ سے باہر نہیں نکل سکا۔ ڈاکٹر امجد سراج نے کہا کہ محمد عثمان ڈیپلائی تھرپارکر کے چھوٹے گاﺅں میں پیدا ہوئے اور سندھ میں صحافت کا روشن ستارہ بن کر ابھرے۔ جامی چانڈیو نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسول بخش پلیجو سندھ کی سیاسی اور ادبی تاریخ کے غیر معمولی اور ہمہ گیر شخصیت تھے وہ جدید سندھی فکر کے معمار تھے۔ پلیجو کی تحریروں میں تاریخ کا ادراک اور شعور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایچ پنہور سندھ کی جیالوجی ماحولیات اور اقتصادیات کی تاریخ لکھی اور سومرا دور پر نئی جہت پیش کی۔