کراچی (نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو افسانے کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم 1 میں کیاگیا، اجلاس کی صدارت زاہدہ حنا اور اسد محمد خان نے کی جبکہ نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے، اظہارِ خیال کرنے والوں میں ناصر عباس ،ڈاکٹر طاہرہ اقبال، ڈاکٹر نجیبہ عارف ،اخلاق احمد اور مرزا حامد بیگ شامل تھے، مجلس صدر زاہدہ حنا نے مشاہیر اردو افسانے پر کہاکہ غلام عباس نے پاکستان میں انتہا پسندی کے حوالے سے بھی افسانہ لکھا ، قرہ العین حیدر سمیت اردو افسانے کے مشاہیر کی تعداد بہت زیادہ ہیں ، تمام مشاہیر نے اردو افسانے کی بہتری میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ، اسد محمد خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افسانوں نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا اور پاکستان عظیم ملک ہے اور یہاں کے قاری بھی عظیم ہیں، ناصر عباس نیر نے انور سجاد اور انتظار حسین کی افسانہ نویسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ انور سجاد اپنے زمانے اور آج کے عہد پر لکھتے اور حقیقت کو کلیت میں رکھتے تھے ، انہیں گرفتار بھی کیاگیا، انور سجاد نے غاصبیت کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا ، انور سجاد افسانے کے ساتھ ساتھ دیگر صفتوں اور فنون میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ، ان کے افسانوں میں دیگر فنون کی جھلک بھی واضح دکھائی دیتی ہے، انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے جبر کے موضوع پر بھی کوب لکھا، انتظار حسین نے زبانی ، مذہبی اور تحریری روایات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ، ممتاز نقاد ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے مختلف پہلوﺅں کی نشاندہی کی ہے، عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں خواتین کے حقوق کو ابھارا وہ سیاسی طور پر قوم پرست خاتون تھیں، انہوں نے اپنی تحریروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی، احمد ندیم قاسمی کا مزاج انقلابی تھا انہوں نے اپنے افسانوں میں مظلوم طبقات کے ساتھ ساتھ پنجاب کی دیہی زندگی کی عکاسی کی ، احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میں گنڈاسہ متعارف کرایا جو آج بھی ڈراموں اور فلموں میں پیش کیا جاتا ہے،مرزا حامد بیگ نے مشہور افسانہ نگاروں منٹو اور بیدی کے افسانوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ راجندر سنگھ بیدی کا آبائی علاقہ ڈسکہ تھا ، قیام پاکستان کے قبل بیدی اپنے بھائی کے پاس روہپڑ چلے گئے، قیام پاکستان کے وقت بیدی شملا میں تھے بعد ازاں وہ دہلی پھر بمبئی جا پہنچے، راجندر سنگھ بیدی نے فلمی دنیا میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں، بیدی کے لکھے کئی ناول اور افسانے چھپ ہی نہیں سکے ، اخلاق احمد نے معروف افسانہ نگار کرشن چندر اور ممتاز مفتی کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے عام کرداروں کو مضبوط کہانیوں کی شکل میں ڈھالا ، کرشن اپنے افسانوں میں کرداروں کے حوالے سے بہت تحقیق کیا کرتے تھے ، ان کے افسانے آدھے گھنٹے میں پڑھے جاتے اور آدھی صدی تک یاد رہتے ہیں ، کرشن نے اپنے زمانے سے بہت آگے کا فکشن لکھا ، ممتاز مفتی نے نفسیات اور ٹیبوز پر افسانے لکھے، انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم کاری کی جنہیں معاشرے میں کہنا مشکل تھا ، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے غلام عباس اور نیر مسعود کی افسانہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دونوں افسانہ نگاروں کا اسلوب جداگانہ تھا، غلام کے افسانوں پر روسی ادب کے اثرات ہیں ، نیر مسعود لکھنو¿ میں رہے ، ان کے افسانوں میں لکھنو¿ی رنگ نظر آتا ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں سطح زمین کے کردار عام ملتے ہیں ، نیر مسعود کے کردار بھی عام ہیں مگر ان میں تخیل کی آمیزش دکھائی دیتی ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں سماجی زندگی کا پہلو نمایاں ہے ، نیر مسعود کے افسانوں میں سماج کی اصلاح کا جذبہ نہیں ملتا بلکہ دریافت کا عنصر غالب ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں بیانیہ سیدھا جبکہ نیر مسعود کی تحریروں کا بیانیہ الجھا ہوا ہے ، نیر مسعود کے افسانوں میں ماورائیت دکھائی دیتی ہے۔