کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ میں بزرگ صحافی جناب خالد چودھری اور نوجوان دوست برادرم فواد بشارت کے ساتھ گاڑی میں کہیں سے آرہا تھا۔۔۔۔۔۔انہوں نے مجھے لاہور پریس کلب کے ساتھ متصل مسجد کے پاس اتارا۔۔۔۔۔گاڑی سے اترتے ہی مجھے نیک نام اخبار نویس جناب تاثیر مصطفی صاحب مل گئے۔۔۔۔۔وہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھ کر آرہے تھے۔۔۔۔۔۔میں نے انہیں سلام کیا تو وہ مسکرا دیے اور بولے آپ کو خالد چودھری صاحب ساتھ دیکھ کر مجھے شیخ التفسیر مولانا احمد علی کے فرزند ارجمند مولانا عبید اللہ انور یاد آجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں نے کہا سر میری کیا اوقات اور میرا ان سے کیا تقابل؟؟وہ بولے مولانا عبید اللہ انور کے ایک طرف دائیں بازو اور دوسری جانب بائیں بازو والے ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔آپ کا بھی "وہی حال” ہے۔۔۔۔۔میں نے قہقہہ لگایا اور کہا سر یہ تو میری خوش بختی ہے کہ ہر دو مکتب ہائے فکر کے دوست مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں بھی ان کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں۔۔۔۔میرے نزدیک دایاں بایاں نہیں۔۔۔۔اچھا انسان ہونا اہم ہے۔۔۔اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے فائدے کا سوچے۔۔۔۔۔میں نے اسی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ اختلاف یا اختلاف رائے کیا۔۔۔۔۔مثال کے طور پر خالد چودھری کو ہی لے لیجیے کہ وہ لاہور کے ایماندار ترین اخبار نویس تھے۔۔۔۔۔راجہ اورنگزیب پریس کلب کے ملازمین تک کا خیال رکھتے۔۔۔۔۔۔۔اور تنویر عباس نقوی اپنا خسارہ کرکے دوسروں کو فایدہ پہنچاتے۔۔۔۔سید ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔لاہور کے بہترین ایڈیٹر جناب طاہر پرویز بٹ ۔۔۔جناب عظیم نذیر اور جناب نوید چودھری بھی اس سکول آف تھاٹ کے لوگ ہیں۔۔۔اسی طرح برادرم معظم فخر اور جناب اشرف سہیل کا بھی یہی قبیلہ ہے۔۔۔۔۔۔ یہی حال خود جناب تاثیر مصطفے اور دستور کے نام سے مشہور ان کے حلقہ صحافت کا ہے۔۔۔۔۔۔ایک سے بڑھ کر ایک نیک نام۔۔۔۔۔۔جناب اسرار ںخاری۔۔۔۔۔جناب حامد ریاض ڈوگر۔۔۔۔۔میرے استاد پروفیسر عابد کھوکھر کے استاد گرامی جناب عابد تہامی۔۔۔۔۔صحافت کے افق پر یہ وہ قابل رشک”جماعتی لوگ”ہیں جن کی امانت اور دیانت کی گواہی آنکھیں بند کرکے دی جا سکتی ہے۔۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ "صحافتی سیاست” میں "منصورہ” کو کوئی بیچ کھا گیا۔۔۔۔۔۔۔بہرکیف جناب تاثیر مصطفے کے الفاظ میرے لیے ہمشہ سند رہیں گے۔۔۔تھینک یو سر۔۔۔۔۔۔!!!!!