لاہور (رپورٹ نواز طاہر )
کتاب معاشرہ اور معاشرے کی ترقی ایک دوسرے سےلازم و ملزوم ہیں جو معاشرہ کتاب سے جڑا رہتا ہے وہ اپنی تہذیبو تمدن کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی تہذیبوں سے بھی بخوبی واقف رہتا ہے اور اورہر شعبے ین ترقی بھی کی ضان بھی کتا ہی بنتی ہے جبکہ انفرادی طور پر قلبی و ذہنی تسکین الگ دیتی ہے ، پاکستان میں کتاب سے جڑے افراد اب ایک طرف تحقیق و تخلیق سے دور ہوتیکتب اوردوسراکتاب کی قوت خریدسے باہر ہونے کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں ، ایسے مین وہ ادارے جو بنائے ہی علم و ادب کے فروغ کیلئے گئے تھے وہ بھی نفع کی رف دیکھنا شروع ہوگئے ہیں جس سے کتاب کی فروخت مزید کم ہونتی دکھائی دے رہی ہے۔
اگرچہ ملک بھر میں جابجا اشعاتی و طباعتی ادارے بھی موجود ہیں اور کتاب میلے بھی لگتے ہیں جہان رعایتی نرخوں پر بھی کتابیں دستیاب ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود کتاب بین کیلئے آسانی کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے اچھی کتب لکھنے والے اور خاص طور پر تحقیقی و تخلیقی کتب متاثر ہورہی ہیں ۔
اس وقت سرکاری اور غیرسرکاری ادارے پرانی کتابوں پر من مانی نئی قیمتوں کی چٹیں لگا کر فروخت کررہے ہیں اور کتب بینی مشکل بنا رہے ہیں جبکہ مصنفین کو اس نئی قیمت کے مطابقرائلٹی بھی سوالیہ نشان ہے ۔ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ اور کتاب کم کیوں بک رہی ہے ، کونسی کتابیں آج بھی مقبول ہیں یا مارکیٹ میںان کی طلب ہے ، کتاب کی قیمت کا تعین کس طرح کیا جاتا ہے ؟ جب پبلشرز سے سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ آج بھی اچھے لکھاریوں اور اچھی تخلیقی و تحقیقی کتب کے ساتھ ساتھ ناول سرفہرست ہیں اور مذہبی کتب سوشل میڈیا پر تحریف کے باعث وبارہ فروخت میں اضافے کی طرف برھ رہی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ھکومتی سطح پر بھی مناسب اقدامات اتھائے جائیں ۔
گذشتے دنوں لاہور پریس کلب میں کتاب میلے میں پنجاب حکومت کے سرکاری ادارے مجلس ترقی ادب سمیت مختلف اسٹالوں پر پرانی کتب پر نئی کتب کی چٹیں لگی فو¿دکھیں تو اس کے محرکات پر بات کرتے ہوئے پبشنگ کے شعبے سے عشروں سے وابستہ نصیر احمد کا کہنا ہے کہ اصل میں کتاب کی قیمت کا تعین اخراجات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے اب کاغذ کے نرخ بہت بڑھ چکے ہیں ، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں ، کاغذ سمیت مختلف اشیاءکے نرخ دگنا ہی نہیں تین گنا سے بھی بڑھ چکے ہیں ، اس لئے پبلشر کو مجبوراًکتاب کی قیمت زیادہ رکھنا پڑتی ہے ورنہ پہلے وقت تھا کہ ہم ایک سو اٹھائیس ایک سو پچاس صفحات کی قیمت ایک بیس ، تیس روپے رکھتے تھے م بہت اچھے طریقے سے چل رہی تھی اور کتاب بہت زیادہ بکتی تھی لیکن جو جوں کاغذ کا ریٹ بڑھ گیاہے اصل میں حکومت کاغذ بنانے والی کمپنیوں کو کنٹرول نہیں کررہی ، جب ان کمپنیوں سے بات کی جاتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ ڈالر بہت مہنگا ہے ، فلاں چیز اتنی مہنگی آرہی ہے ، اب اقگر ان کی چیزوں کو مان لین تو پرنٹنگ والے اور بائنڈنگ والے بھی یہی کہتے ہیں کہ بجلی ، گیس سمیت فلاں فلاں چیز کا ریٹ بڑھ گیا ہے، ہر بندہ پھنس گیا ہے کتابین چاپنے والے اس وقت کشمکش مین ہیں کہ کتاب چھاپیں تو اس کی کیا قیمت رکھیں اور قیہمت رکھتے ہیں تو پھر اس کی فروخت کا اور مارکیٹنگ کا مسئلہ ہوتا ہے پڑھنے والوں کا بھی مسلہ ہے ، دوسرے شہروں والے دوکاندار پہلے ہم سے بہت مال منگواتے تھے لیکن اب انہوں نے بہت کم کردیا ہے کیونکہ ان کی بکری نہیں ہے اب ان کی سیل ہوگی تو وہ وہ ہمارے پاس آئیں گے ناں !
اب مسئلہ یہ چل رہا ہے کہ کچھ لوگ موبائل فون کی طرف بھی ااگئے ہین جہاں سے وہ اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں نئی جنریشن تو کتابین پڑھ ہی کم رہی ہے جو پرانی جنریشن ہے پیتیس چالیس سال سے اوپروالی جنریشن وپ پھر بھی کچھ نہ کچھ کتاب کی طرف راغب ہے اور کچ ایسے لوگ بھی ہین جو اپنی ماہانہ انکم سے ہر ماہ کچھ نہ کچھ کتابیں خریدتے ہیں ، ان خاندانوں میں آج بھی رواج ہے کتا ب کا اور کتاب بینی کا لیکن مختلف نئی جنریشن کتا سے دور ہوتی جارہی ہے لیکن اس میں یہ نئی چیز اائی ہے کہ ، ہم تو پبلشنگ سے وابستہ ہیں کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا سمیت ڈیجیٹل ذرائع سے کتابوں کی فروخت کی فروخت شروع کردی ہے اور ان کی کتاب بک بھی رہی ہے ، یکن یہ چھوٹے حجم کی کتاب ہوتی ہے اگر ہم چھاپ کر زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین چار سوروپے رکھتے ہیں لیکن وہی کتاب سوشل میڈیا کے ذریعے بارہ سے پندرہ سو روپے قیمت رکھی گئی ہے لوگ گھروں بیٹھے منگوا رہے ہیں ہمیں تو لگتا ہے کہ بظاہر یہ کتابیں فروخت ہورہی ہیں لیکن دکانوں پر یہ کتابیں فروخت نہیں ہورہیں ار کلوئی کتاب کسی شہر میں د رکھ دیتے ہیں اور بتادیت ہیں کہ فلاں دکان پر یہ کتاب رکھ دی گی ہے تو وہاں پر فروخت نہیں ہورہی ، قیمت کے تعین کا معیار بتاتے ہوئے نصیر احمد نے بتایا کہ س سے پہلے تو ہم کتاب کے کاغذ کی شرح نکالتے ہیں کہ ایک کتاب کے لئے کاغذ کے کتنے رِم دکار ہیں فی رم ہمیں کتنے کا ملے گا اس کے عد اس کی پہرنٹنگ کا اس کی کمپوزنگ کا بائنڈنگ کا یہ سارے اخراجات ملاکر اس کا ٹوٹل کرتے ہیں کہ اس مین ہمیں کتنے میں پڑ رہی ہے اور اس کے صفحات اس پر تقسیم کرتے ہیں ، کی فی صفحہ کتنی کاسٹ آتی ہے تو اس میں ہمارا زیادہ سے یادہ نفع اتنا ہونا چاہئے ہمارا نفع بہت ہی کم ہوتا ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ نفع کم ہو لیکن کتابیں زیادہ بک جائیں ، فرض کریں کہ میری ایککتاب پر دس رم کاغذ استعمال ہوتا ہے تو تو میں اس میں کمپوزنگ بائنڈنگ اس پر لگنے والے آرٹ پیپر کا بل بھی شامل کردیا ہے یہ تمام اخراات ٹوٹل کرکے کمہ اس پر دو لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں تو میں ہزار کاپی پر تقسیم کرنے ہیں ، اور شرح سامنے آجاتی ہے مال کے طور ہر ایک کتاب اگر مجھے گر میں دس روپے میں پڑ رہی ہے تو تو ظاہر ہے کہ میں تو مارکیٹ میں تیرہ روپے کی تو بیچنی ہے اس سے زیادہ فرق ہم نہیں رکھتے ، لیکن اب ایک تو یہ ہے کہ لوگوں کے پاس پرانی کتابیں پڑی ہیں ان پر انہوں نے خود سے ہی نئی قیمتوں کی چٹیں لگانا شروع کردی ہیں کہ اگر آج یہی کتاب چھاپی جائے تو آتھ سو روپے میں پڑے گی حالانکہ وہ دو اڑھائی سو روپے کی تھی اس پر چٹیں لگا کر آتھ سو ہزار روپے کی بیچ رہے ہیں ،
کتابیں مختلف سائز کی ہوتی ہیں ، ایک تئیس ، چھتیس سائز کی ہوتی ہے اور بیس ، ےیس سائز میں ہوتی ہے ، کاغز کی نوعیت کے حساب سے قیمےت مقرر ہوتی ہے ، کہ ارڑسٹھ گرام ،پچپن یا ساٹھ گرام لگانا یا درآمدی لگانا ہے مجموعی طور پر اڑھائی روپے فی صحہ کتاب چھپ جاتی ہے ۔ پرانی کتا پر نئی چٹ لگانا کس کے ساتھ انصاف اور کس کے ساتھ نا انصافی کے سوال پر نصیراحمد نے کہا کہ اسے ہر کسی کے ساتھ ناانصافی تصور کریں ، کیونکہ ایسا ہونا تو نہیں چاہئے لیکن لیکن جن دکانداروں کی کتابیں سیل ہورہی ہیں انہوں نے س سے پہلے بڑھائی ہیں ، اور پورے اردو بازار میں کسی نے قیمت نہیں بڑھائی انہیں دیکھ کر پھر دوسرے لوگوں نے بھی کہا کہ اگر یہ رھا رہے ہیں تو مجھے بھی لگا کہ میرے پاس جو پہلے کی پڑی ہیں اس پر میں بھی کیوں نہ چٹ لگادوں ، مجھے کیا مسئلہ ہے اس لئے ایک دوسر کو دیکھ کر لوگوں نے اپنے طور پر قیمتیں بڑھا دیں ہیں ھالانکہ یہ ہونا نہیں چاہئیںتھیں کتابوں کی فروخت پر بہت اثر پڑگیا ہے پہلے تو ہر موضوع پر کتاب بکتی تھی جو بھی چھاپتے تھے وہ ہاتھوں ہاتھ بکتی تھی یہ کتاب بینی کا رحجان تھا مگر اب اصرف منتخب کتابیں بکتی ہیں ہر ایک کتاب نہیں بک رہی ورنہ پلے اسلامی شاعری ادبی ہر موضوع پر بکتی تھی ہزاروں لاکوں کتابیں سیل ہوتی تھیں ۔ پہلے اگر پانچ کتابوں کا ارڈر ہوتا تھا اور ہم دس بھجوادیتے تھے تو اعتراض نہیں ہوتا تھا وہ کبی اعتراض نہیں کرتے تھے اب اگر دو کاپیوں کے اڑدر پر تین کاپیاں بھیج دیں تو فوری اعتراض کرتے ہیں کیوں تین بھیجیں ہیں یہ بل کا مسئلہ بھی ہے یہ فروخت ہونگی تو آپ کو پیسے بھیجیں گے یہ مسائل بھی چل رہے ہیں ، نئے لکھنے والوں میں تحقیق اور اندازِ تحریر پر گفتگو کرتے ہوے نسیر احمد نے کہا کہ پاکستان میں تحقیق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے کتابیں چھاپنے والو جو بیٹھے ہیں وہ مختلف کتابیں لیتے ہیں انہین میں سے کاٹ چھانٹ کر نئی کتابیں چھاپ دیتے ہیں ، یہی سلسلہ چل رہا ہے تحقیقی لوگ جب پورا معاوضہ نہیں پائیں گت تو بد دل ہوجائیں گے ایک لکھنے والے بڑی محنت سے کتاب کھی ہے وہ ج ادارے کے پاس لے کر جاتا ہے کہ میں نے کتاب چھاپنی ہے تو اگر تو وہ مضبوط ادارہ ہے تو وہ اس کی کتاب چھاپ دے گا اگر ہمارے پاس لائے گا تو پاس
اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ اس کی کتاب چھاپ دیں ، پھر ہم کہتے ہیں کہ آپ پیسے لگائیں تو یہ کتاب چھاپ دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں پیسے کہاں سے لگاﺅں ااپ لاگیں تو ہم انلار کردیتے ہیں ۔ کہ ہمارے پاس کتاب چھسپنے کیلئے اتنا سرمایہ نہیں ، اس کی کتاب اگر چاپ بھی دیں تو اگر سیل نہیں ہوتی تو کہا جاتا ہے کہ اگر سیل ہو گی تو آپ کو پیسے مل جائں گے ورنہ کتابیںواپس مل جائیں گی یہ رحجان دیکھ کر لکھنے والا انتہائی بد دل ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں کس مسیت میں پڑ گیا ہوں میں نہ ہی لکھتا ، کیونکہ ہر بندے کو تو کچھ نہ کچھ انکم چاہئے کھانے کیلئے چاہئے روزگار بھی لوگ اسی سے چلات ہیں، تو یہ ان کی ضرورت ہے اگر تحقیق کا اسے معاوضہ نیں ملے گا تو وہ دوبارہ تحقیق نہیں کر گا بے چارہ بد دل ہو کر پیچے ہٹ جائیے گا ۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کتاب پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے نصیر احمد نے بتایا کہ یہ بہت زیادہ اثر انداز ہوسکتی ہے ، مثال کے طور پر میں ایک پبلشر تو بن گیا ہوں لیکن جینون اتنا علم نہین تھا حادثاتی طور پر اس شعبے میں آگیا ہوں تو میں ادر ادھر سے پکر کر کتابیں چھاپ دیتا ہوں مگر میں ذاتی طور پر سمھجتا ہوںکہ میں پبلشر بن کو¿ گیا ہوں میری یہ کوش ہونی چاہئے کہ میں سیکھوں یہ نہیں کہ ایسے ہی کتابیں چھاپوں جب بچ کتابیں ب پڑھیں گے تو معاشرے میں بہتری آئے گی ملک یں من آئے گا ایک دوسرے لا احترام بڑھے گا اور ایک دوسرے کی بات سنیں گے کتا ب پڑھنی چاہئے ، اس وقت سب سے زیادہ دلچسی سے بکنے والی کتابوں میں چند سال پہلے تک شاعری کا رحجان تھا اسلامہ کتب اب بھی بکتی ہیں اس وقت سب سے زیادہ موٹی ویشن پر مرکیٹنگ کے حوالے سے لوگوں کو قال کرنے کے حوالے کتابیں بک رہی ہیں۔ کہ آپ یہ کرسکتے ہیں وہ کرسکت ہیں ، کاروبار کرسکت ہیں کاروار چلا سک ہیں ، اس طرف لوگوں کا رحجانبڑھھ گیا ہے ۔ ناول بک رہے ہیں جس ناول پر سکرین میں سیریل بنتی ہے وہ زیادہ بکنا شروعہوجاتا ہے ، اسے دیکھ کر دوسرے بھی اسی طرف قدم اٹھاتے ہیں ، اس وقت افسانے کم اور ناول زیادہ رحجان رکھتے ہیں لیکن اچھے لکھنے والوں کے لوگ کہتے ہیں کہ جناب جوتے شوکیس میں اور کتابیں زمین پر رکھ کر بیچی اتی ہیں ، باتیہہے کہ نئی کتاب کبھی بھی زمین پر رھ کر نہیں دکانوں پر ریکوں میں ہی رکھ کر شیشوں کے اندر رکھ کر بیچی جاتی ہے ۔ وقت گذرتا ہے ، کتاب نہیں بکتی تو لوگ کہتے ہیں کہ گودام کا کرایہ دینا ہے اتنی قیمے کی کتابیں نہیں جتنا گودام کا کرایہ پرتا ہے تو تو مجبورا وہ کتابیں فٹ پاتھوں پر چلی جاتی ہے اور انتہائی کم قیمت پربیچتے ہیں ہمارے ادارے میں اتنی کتابیں تھیں کہ بشریٰ رحمان کی تھیں ، امجد الم امجد کی تھیں ، وصی شاہ کی کتابیں تھیں ۔ کافی لوگوں کی کتابیں تھیں ، بت زیادہ اسٹاکتھا سیل نہیں ہورہا جتنی قیمت کی کتابیں تی ان سے چار گنا تو گودام کا کرایہ دیدیا تھا ااکر میں اتنے نقصان کے بعد ہم نے ہم نے وہ کتابیں ردی میں اٹھوا دیں ۔ البتہ بڑے شعراءلھاریوں کا ریپرنٹ کی شرح برقرار ہے لیکن رحجان کمہوا ہے البتہ نئے شاعر کی کتابیں بکنا کم ہوگئی ہیں ، ۔۔۔۔۔
۔
اس کے بعد میں نے مجلس ترقی ادب کے اسٹال پر بی جاکر دیکھا تو سرکاری لوگو وہاں بھی موجود تھا اور اس کے ساتھ دیگر معاملات بھی تھے جن پر باتکرنے سے ریز کیا گیا ۔
منیشنل بک فاونڈیشن کے بک اسٹال پر بھی گیا جہاں سرکاری لوگوں بھی لگا ہوا تھا یہاں پر عبدالرحیم ۔
ان سے پوچھا گیا کہ مجلس ترقی ادب کی کتب پر چھپی کتب اور وصول کی جانے والی قیمت زیادہتھی مگر نیشنل بلک فاونڈیشن کے بک اسٹال پر ایسا نہیںتھا
جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا نیشنل بک فاﺅنڈیشن کی پالیسی یہ ہے جو کتاب چھپ چکی ہے وہ برقرارہے گی ۔ عبدالرحیم نے بتایا کہ کتاب کی قیمت پر چیٹ لگانا درست نہیں ، خاص طورر ب نیشنل بک فاونڈیشن کی پالیسی یہ ہے جو کتاب چھپ چکیہے اس کی قیمت لگ چکی ہے وہی چلے گی ایک کتاب ہمارے پاس موجود ہے جو سنہ دو ہزار بارہ میں چھپی تھی ، اس کی قیمت اس وقت دو ہزار روہے تھے ، وہ آج نونبر دو ہزار تئیس میں بھی اتنی قیمت رکھتی ہے جو ہم نصف رعایتی قیمت پر دے رہے ہیں ۔ جب نئی کتابین ختم ہوجاتی ہیں اور جب نئی کتابیں آتی ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کا کاغذ پرنٹنگ سب کچھ ڈالکر مہنگی پڑتی ہے ، مثال کے طار پر ہمارے سامنے پروفیسرر رفعت اعزاز کی کتاب’ غلامی سے آزادی تک کا سفر ‘ سنہ دو ہزارسترہ میںن میں چھپی تھی تو اس کی قیمت ایک سو بیس روپے تے اب دوبارہ چھپی ہے تو اس کی قیمت چار سو روپے سے زیادہ ہے اور چیٹ نہیں لگائی بلکہ کتاب پر چھپی قیمت ہی وسول کررہےہیں۔ نئی چیٹ لگا کر کتا چ بیچنا نجی پبلشرز کی مان مانی ہے ہماراسرکاری ادارہ ہے کٓس طور پر نیشنل بک فاونڈیشن اگر چٹ لگا کر بیچے گا تو پکڑا جاے گا یہ غلط اور خلاف قانون ہے جو کتاب جس وقت چھپی تھی اس کا ریٹ وہی ہونا چاہئے تھا جو چپجتےوقت تھا ، اس پر اٹھنے والے اخراجات اسی وقت کے تھت ، مجلسِ ترقی ادب کو بھی چٹ لگا کر بیچنے کا اختیار نہیں۔ ہماری پالیسیایسینہیں ہے ۔ ہوسکتا کہ پناب حکومت کی پالیسی ایسیہو لیکن بک فاﺅنڈیشن کی پالیسی نہیں ، ہمارے پچھلے سالوں میں ریڈر کلب کے نام سے ایک اسکیم ہوتی تھی جس میں پچپن فیصد رعایت دی جاتی تھی جہاں تک ہم مختلف پبلشرز کی کتابین بھی خرید کر پچاس فیصد رعایت پر ریڈرز کلب کے کارڈ پر فراہم کرتے تھے یہ پالیسی پی ٹی آئی کی سنہ دو ہزار اٹھارہ کی حکومت نے ختم کردی تھی دیگر سبسڈیز کے ساتھ یہ بھی ختم کی گئی تھی اس سے کتاب کی راخت بڑی طرح متاثر ہوئی ہے اب پھر لوگ اسی پالیسی کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں ہم کدھر سے ائیں یہ تو حکومت کی پالیسیاں ہوتی ہیں ۔ اگر پالیسی بحال کردی جائے تو لوگوں کا رحجان کتاب کی طرف دوبارہ ہوگا ، کتاب ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جو کتاب میں پڑھا جائے گا وہ دیرت تک یاد رہے گا یہ جو کہا جاتا ہے کہ موبائل آگیا وغرہ وغیرہ ، سب کچھ موبائل میں مل سکتا ہے لیکن کتاب پڑھی ہوئی یاد نہیں رہے گی صرف وقت طور کچھ چیزیں ہی ذہن میں رہیں گی پھر بول جائیں گے مجھے چپن میں پڑھی ہوئی ایک نظم ابھی تک یاد ہے جیس صوفی تبسم کی نثم ٹوٹ بٹوت نے کھیر پکائی ، خالہ اس کی لکڑی لائی آپا نے بی آگ جلائی۔۔۔۔۔ آ تک وگوں کو یاد ہیں ، ہمارے پرانے لکھاریوں کی تضحیک ہے انہیں تو ہم نے زندہ رکھنا ہے صوفی تسم ، محمد علی جوہر جیسے لکھنےوالے ہم نے زندہ رکھنے ہیں ہم اس طرف آتے ہیں نہیں ہیں ،ہم سے تجویز نہیں لی جاتی ، کتابیں بیچنے والوں سے پوچھا جائے کہ کونسی کتاب کو خریدار اہمیت دیتے ہیں بچوں کی خاص طور پر سستی کتابیں کم سے کم قیمت پر فروخت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایہک مذہبی کب ک اسٹال پر عبدالرحمان جج نے بتایا کہ ہماری تمظیم تو مذہبی کتب کیلئے مخسوس ہے ہم کتاب کی قیمت تبدیل نہیں کرتے ، پہلے سے چھپی کتابوں پر چٹ لگا کر بیچنا درست نہیں ، ہم پرافت نہیں رکھتے ، پہلے سے چھپی کتابوں پر لکھی ہوئی قیمت ہی وصول کرتے ہیں اور چٹ لگانا یر مناس ہے ،ہمارا ادارہ دعوت اسلام کی تریج و تبلیغ کیلئے ہوتی ہیں، باقی کتابیں چھاپنے والے
اس وقت مذہبیکترابیں پڑھنے والوں کا رحجان کم ہوا ہے سول میڈیا کہ وجہ سے لیکن ایسا ضرور ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر تحریف شدہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو اس کی تصدیق کیلئے لوگ کتابوں کی طرف لوٹ رہے ہیں ، تاکہ من مانی کرنے والوں کی حوصلہ شکنہی ہورہی اور لوگ کتاب سے ہی حوالے سمیت تصدیق کرتے ہیں ، ہمارے خیال میں مذہبی کتب کی طرف لوٹنے کی ایک وجہ سوشل میڈیا پر من مانی اور تحریف ہے ، کتاب سے ہی تسلی ہوتی ہے ۔
ادبی حلقوں میں محترم نام رکھنے والے عباس تابش جو اس وقت مجلس ترقی ادب کے سربراہ ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہماری پالیسی ہے کہ بورڈ آف گرنر کسی بھی کتاب کی قیمت کا تعین کرکے اس کی منظوری دیتا ہے اور پھروہی کتاب اسی نئی قیمت پر فروخت کی جاتی ہے ، اس وقت بھی جو قمتیں مقرر کی گئی ہیں انہیں قیمتوں پر ہی کتب فروخت کررہے ہیں ایک سوال ے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کتاب کی قیمت میں سالامہ دس فیصد تو باقاعدہ پالیسی کے تحت ہی کی جاسکتی ہے ، ایک سوال کے جواب مین انہوں نے بتایا کہ جب سے مین نے اس ادارے کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں تب سےتو کسی نئی قیمت کا تعین نہیں کیا گیا، یہ تمام قیمتیں میرے زہ داریاں سمنبھالنے سے پہلے ہی مقررہوچکی ہیں ۔ ایک سوا؛ل کے جوا میں انہون نے کہا کپ پلشرز کتاب کی قیمت کا بیس سے پچیس سے فیصد نفع وصول کرتے ہیں ، اب ہم پارلیمنٹ کو بھی یہ تین سو ساٹھ کتابیں پانس سو کے سٹ بنا کر دے رہے ہییں ۔ ہم نے کسی کتاب پر چٹ نہیں لگائی جبکہ ایک بلک لیٹ موجود ہے اور وہ پہلے سے موجود ہے ۔ اب ایسا تو ممکن نہیں کہ جو کتاب بیس سال قبل چھپی ہو اور اس وقت اس کی قیمت دوروپے ہو اور اسے اب بھی سوروپتے میں ہی فروخت کیاجاسکے ، یعنی وہ کتاب مین نفع کی شرح کی وکلات کرتے رہے لیکن اپنے ادارے کے نسبالعین کی وکلات نہیں کرسکے جیسا کہ ان سے پہلے بھی منصور آفاق خود اعلیٰ پائے کے لکھاری ہونے کے باوجود کتاب اور کتاب بینوں کے رشتے مضبوط کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کے بجائے نفع و نقصان پر کابند رہے جیسا کہ عباس تابش نے بتایا کہ نئی کتابوں کی قیمتوں کا کتابچہ ان کے ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے ہی چھپ چکا تھا ، اُس وقت منصور آفاق اس ادارے کے سربراہ تھے ۔