لاہور( رپورٹ :نواز طاہر)ظالم اور مظلوم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے ، قانون کی نظر میںوہ دونوں قانون شکن تھے، ایک دکھی ظالم چالان کرنے والے معمر ٹریفک اہلکار تھا اور دوسرادکھی مظلوم بارہ تیرہ سالہ موٹرسائیکل چلانے والے لڑکا تھا، رکشہ چلانے والے کی قانون شکنی کم عمر کے باعث ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر رکشہ چلانا جبکہ ٹریفک پولیس کی قانون شکنی قانون کی متعلقہ دفعات کے مطابق چالان نہ کرنے ، محکمانہ اور عدالتی احکامات کے سامنے سماجی حالات کے مطابق انسانیت کے تقاضے پورے کرنا تھا ۔ یہ منظر لاہور کے ایک معروف چوراہے کا تھا ، ایسے مناظر ان دنوں لاہور سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں جابجا دکھائی دیتے ہیں، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار قانون ، عدالتِ عالیہ کے احکامات پر پوری طرح عملدرآمد کروانے میں زہنی اذیت اور دکھ میں کا شکار نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان احکامات پر پوری روحح کے ساتھ عملدرآمد کروانا ممکن ہی نہیں جبکہ ممکن بنانے کی کوشش میں ان گنت گھروں میں چولہا جلنا بند ہوجائے گا ۔واضح رہے کہ مختلف سنگین حادثات میں ہلاکتوں کے بعد پنجاب میں نگران حکومت نے کم عمر اور بغیر لائسنس موٹر سائیکل اور گاڑیاں چلانے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کررکھا ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے لائسنس نہ رکھنے والوں کی گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے جس پر عملدرآمد کے دوران پولیس شدید دباﺅ کا شکارہے ،اس کریک ڈاﺅن کے دوران روزانہ کا ٹارگٹ پورا کرنے والے اہلکارو طلبا ، طالبات اور محنت کشوں کے چالان توکررہی ہے لیکن زیادہ تر چالان کم سزاوالے قواعد کے تحت کیے جارہے ہیں ۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچھلے ایک ہفتے کے دوران پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ۔ چالان کیے گے ہیں ، موٹر سائیکلیں تھانوں میںبند کی گئی ہیں اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں ۔صرف صوبائی دارالحکومت لاہور کے بارے میں پولیس کا ماننا ہے کہ یہاں لاہور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد تہتر لاکھ اور لائسنس رکھنے واے تیرہ ہزارافراد ہیں جبکہ پانچ سال قبہ سنہ دو ہزاراٹھارہ میں عدا؛ت عالیہ نے اپنے ایک فیصلے میں قراردیا تھا کہ لائسنس نہ رکھنے والوں کی گاڑیوں کی رجسٹریشن نہیں ہوگی لیکن اس پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوسکا اور خاص طور پر موٹرسائیکلوں کی رجسٹریشن میں لائسنس رکھنے کا اطلاق یقینی نہیں بنایا گیا اور اسی دوران ون ویلنگ اور بگڑے ہوئے کم عمر امیر زادوں وجہ سے ہونے والے حادثات سخت اقدامات اٹھائے جانے کا موجب بنے اور یہ طبقہ اس وقت بھی قانونی کارروائی سے محفوظ ہے ۔ اس کے برعکس موٹر سائیکل رکشہ چلا کر گھروں کی کفالت کرنے والے محنت کش ، طلبا و طالبات زیادہ زیر عتاب آئے ہیں ۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ لاہور ان بڑے شہروں میں سرفہرست ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی کے باعث موٹرسائیکل رکشہ اور موٹرسائیکل عوامی سواری ہے اور اب موٹرسائیکل لوڈر بھی سڑکوں پر عام ہیں جن کی بطور لوڈر اور مسافر رکشہ رجسٹریشن نہیں کی جارہی اورانہی کے ہی سب سے زیادہ چالان کیے جارہے ہیں ۔ دو روز قبل پنجاب پولیس کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار مین بتایا گیا تھا کہ کم عمر اور بغیر لائسنس ڈرائیورز کے خلاف خصوصی مہم کے دوران ایک روز میں مجموعی طور پر دس ہزار سات سو چوبیس چالان، ایک ہزار سات سو اکیاسی مقدمات درج کئے گئے صرف لاہور میں،لاہورمیں کم عمر اور بغیر لائسنس ڈرائیورز کے تینہزار سے زائد چالان، سات سو چھبیس مقدمات درج کئے گئے، لاہورمیں کم عمر ڈرائیورز کے خلاف تین سو اناسی ایف آئی آرز درج اور ایک سو چھ چالان کئے گئے بغیر لائسنس ڈرائیورز کے خلاف تیمن سو سینتالیس مقدمات درج کئے گئے دو ہزارآتھ سو پچانوے چالان کیے گئے۔ فیصل آباد دوسرے ، راولپنڈی تیسرے ،گوجرانوالہ چوتھے اور ملتان ریجن پانچوں نمبر پر رہا ۔کم عمر موٹرسائیکل رکشہ چلانے والے کا چالان کرنے والے ٹریفک اہلکار نے بتایا کہ چونکہ وہ سڑک پر لگے کیمرے میں آچکا تھا ۔ اس لئے اس کے کاغذات اور لائنسنس کرنا ضروری تھا حالانکہمیرے دل کی آواز تھی کہ اسے نظر آنداز کردون ، وہ پانچ افراد کے کنبے کاواحد کفیل تھا اور اس نے دو گھنٹے کے دوران صرف سواتین سو روپے کمائے تھے جس میں ایندھن و رکشہ کا کرایہ منہا کر دیکھا جائت تو اس کی مزدوری پنتالیس پچاس روپے بنتی تھی ، مین نے مجبوراً روتے دل کے ساتھ اس کا چالان کیا لیکن یہ چالان متفرقاتِ دیگر خلافورزیوں کے قاعدے کے تحت کیا جس کا جرمانہ دو سو روپے ہے اگر میں متعلقہ قواعد اور پالیسی کے تحت چالان کرتا تو اس کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوتا ، گرفتاری بھی ہوتی اور جرمانہ بھی دو ہزار روپے سے زائد ہوتا ، میں دو سو روپے کا چالان کرکے بھی ظلام ٹھہرا ہوں جبکہ میں نے اپنے فرائض می کی انجام دہی ں دیانتداری نہیں برتی بلکہ انسانی ہمدردی کی ، چالان کے بعد یہ بچہ مظلوم ہے حالانکہ اس نے قاعدے قا نون کی خلاف ورزی اور قانون شکنی کا ارتکاب کیا ۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس اہلکار نے بتایا کہ طلبا کے ساتھ ساتھ طالبات کی خاص شرح موٹربائیک و اسکوٹی چلانے لگی ہے اور اکثریت کی یا عمر پوری نہیں یا لائسنس نہیں ، انہیں نظر انداز کرنا اس لئے ضروری ہے کہ لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کافقدان ہے ، اگر حکام کی پالیسی اور عدالتی احکامات پر پوری طرح عمل کیا جائے تو ہزاروں مقدمات درج ہونے سے ان طلبا و طالبات کا اندرون و بیرون ملک مستقبل خطرے سو دوچار ہوجائے گا کیونکہریکارڈ میں یہ جرم کے مرتکب دکھائی دینگے ، اس اہلار کے مطابق طلبا و طالبات کے بعد سب سے’ پتلی حالت‘ محنت کشوں کی ہے جن میں سے بیس فیصد ایسے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے تو کوئی ان کے ہیچھے آنے والا نہیں ، وہ یتیم و مسکین ہیں دسفیصد سے پندرہ فیصد کم عمر موٹرسائیکل رکشہ چلانے والے اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں ، کاروائی کی صورت میں ایسے خاندان بھوکوں مر جائیں گے اور چالیس فیصد اہیسے ہیں کہ اگر ان کا چالان کیا جائے تو وہ دو سے تین دن گھر کا چولہا نہیں جلاسکتے ، کچھ لوگوں نے قرض لیکر اور کچھ نے جمع پونجی سے یہ موٹرسائیکل رکشہ بنائے ہیں، ایسے لوگوں کا چالان کرتے ہوئے اللہ سے ڈر لگتا ہے اس کے برعکس دولت مند وں کےے بگڑے بچے زیادہ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ طاقتور ہیں ، عدالت اورحکومت اگر انڈر ایج رائڈرز کے خلاف کارروائی کا حکم دیتی ہے تو مجبور اور بے وسیلہ لوگون کی کفالت بھی اپنے ذمے لے ۔ اس اہلکار کی تائید کرتے ہوئے ایک سینئر ٹریفک افسر نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہپمشکلات کا شکار ہم لوگ ہی ہیں نہ تو ماتحت عملے کو چالان کرنے سے روک سکتے ہین اور نہ ہی لوگوں کے گھروں کے چولہے بند ہوتے دیکھ سکتے ہیں ، اس لئے زیادہ تر چالان متفرق خلاف ورزیوں کیمد میں کرنے کا درمیانی راستہ نکالا گیا ہے البتہ ہیلمٹ استعمال نہ کرنے اور خاص طور پر ہیلمٹ رکھنے کے بوجود پہننے کے بجائے بازوں پر لہرانے اور صرف دکھانے والوں کا ضرور چالان کیا جاتا ہے تاکہ وہ قانون پر عملدرآمد ی عادت اپنا سکیں۔ ایک سوال کے جواب میں اس پولیس افسر نے بتایا کہ چیف منسٹر ، ہائیکورٹ کے معزز جج صاحب اور آئی جی کسی وقت عام سڑکوں پر خود ناکہپ لگائیں ، لوگوں کے حالات جانیں اور پھر ان حالات ، ریاستی زہ داریوں کے تعین کے بعد کارروائی کا فیصلہ کریں اور ایک روز پوش علاقوں میں بگڑے نوجوانون اور کن سن ڈرائیروں کیخلاف خود کھڑےہو کر کارروائی کریں تو انہیں قانون پر عملدرآمد کروانے کی اچھی رھ سمجھ آجائے گی ، ہم عوام میں رہتے ہین اور جانتے ہیں کہ بےروزگاری اور شدید مہنگائی میں کس بھاﺅ بکتی ہے ۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی انسانی حقوق کمیٹی کے رکن سید سبطین اختر بخاری کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت بے وسیلہ خاندانوں کی کفالت اپنے ذمے نہیں لیتی تب تک ان خاندانوں کے کم سن کفیلوں کے خلاف ٹریفک کے کسی قانون کے تحت کارروائی کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا ، حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتی اور عام لوگوں کا جینا مزید حرام کرنا چاہتی ہے ۔