اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سپریم کور ٹ میں عام انتخابات کا معاملہ پرجسٹس اطہر من اللہ کا 41 صفحات کا اضافی نوٹ جاری کردیاہے جسمیں کہاگیاہے کہ آئین اس ملک کاسپریم لاءہے اورہرشخص کام کرنے کے لیے آئین پر عمل کرنے کاپابندہے۔پاکستانی ووٹرز کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا بنیادی حقوق کے منافی ہے، آئین و قانون کے بر خلاف نگران حکومتوں کے ذریعے امور چلائے جا رہے ہیں،مقررہ وقت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، انتخابات نہ کروا کر عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہو چکی، 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو انکے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا،انتخابات میں تاخیر کو روکنے کیلئے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات 7 نومبر تک ہونا آئینی تقاضہ ہے، انتخابات کی تاریخ دینا آرٹیکل 48 شق پانچ کے تحت صدر مملکت کا ہی اختیار ہے، یہ یقینی بنانا صدر مملکت کی ذمہ داری تھی کہ پاکستان کی عوام اپنے ووٹ کے حق سے 90 دن سے زیادہ محروم نہ رہیں،الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا، نوے روز میں انتخابات نا کرنے کی آئینی اور عوامی حقوق کی خلاف ورزی اتنی سنگین ہے کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں، اگر صدر مملکت یا گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا تھا، الیکشن کمیشن کو آئین بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تھا، صدر مملکت اور گورنرز کو اپنے منصب کے مطابق نیوٹرل رہنا چاہئے، الیکشن کمیشن صدر یا گورنرز کے ایکشن نا لینے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا، انتخابات میں 90 دن سے اوپر ایک بھی دن کی تاخیر سنگین آئینی خلاف ورزی ہے،آئینی خلاف ورزی اب ہو چکی اور اس کو مزید ہونے سے روکا بھی نہیں جا سکتا، انتخابات کی تاریخ دینے میں صدر نا ہی الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔انھوں نے مزیدکہاکہ آئین میں ہر شہری کے لیے آزادی اظہار سمیت دیگرامور کی بجاآوری کے لیے طریقہ کار طے کردیاگیاہے جس پر عمل کرنالازمی ہے۔