کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا ایکٹ منظور ہونے اور خود مختار ادارہ بننےکے بعد بھی حکومت سندھ کی بیرونی مداخلت براہ راست جاری ہے۔ افسران کے تبادلے و تقرری کے ساتھ غلط بیانی کرکے افسران کوعہدے ہٹایا جارہا ہے حالانکہ یہ ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ہر افسر کے تبادلے اور تقرری چمک کے زیر اثر ہو رہی ہے،جو افسر جتنا زیادہ گڑھ ڈالتا ہے اتنا ہی پرکشش عہدہ اسے ملتا ہے۔ کارپوریشن کے سینئر گریڈ 20 کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ایس تھری کے افسر حنیف بلوچ کو غلط بیان کرنے اور ایک جونیئر گریڈ 19 کے افسر کی تقرری کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔عدالت نے 29 نومبر 2023ء کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سندھ حکومت سے وضاحت طلب کرلی ہے جبکہ غلط بیانی کرنے پر معافی مانگنے کو کہا ہے۔ واضح رہے کہ کارپوریشن کے ایکٹ کی منظوری اور خود مختار بننے کے بعد اعلان کیا گیا تھا کہ اب بیرونی مداخلت نہیں ہوگئی اگر کسی کا تبادلہ اور تقرری ضروری ہے تو کارپوریشن کے بورڈ کی اجازت سے حکمنامہ جاری کیا جائے گا۔اس ایکٹ کی منظوری کے بعد سندھ حکومت کسی افسر کا تبادلہ اور تقرری براہ راست نہیں کرسکتی۔اس ضمن میں بلدیات، فنانس، قانون، پلاننگ،ماحولیات کے صوبائی سیکریڑیز کی سطح کے افسران کو بورڈ کے ممبران تعینات کیا گیا ہے تاکہ سینئر بیورکریٹس کی موجودگی میں بیرونی مداخلت کو روکا جائے تاہم چیئرمین کارپوریشن و میئر کراچی مرتضی وہاب کی عدم توجہی، غفلت اور گھر بیٹھے چمک ملنے کے باعث سندھ حکومت نے ایک بار پھر براہ راست افسران کے تبادلے و تقرری کے احکامات جاری کرنے شروع کر دیئے ہیں کیونکہ اس میں بہت بڑی چمک کا عمل دخل ہے جسے حکومت سندھ کسی صورت میں کھونا نہیں چاہتی۔کسی افسر کی تقرری کرنے کیلئے کارپوریشن کے بورڈ کے کاموں میں سندھ حکومت نے کھلے عام مداخلت ایک بار پھر شروع کردی ہے، نئے تبادلے میں کراچی کے سیوریج کا سب سے بڑے منصوبہ ایس تھری کے پروجیکٹ ڈائریکٹر حنیف بلوچ جو کہ گریڈ 20 میں تعینات ہیں اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کا عہدہ بھی گریڈ 20 کا ہے انہیں ہٹا کر ایک جونیئر افسر گرہڈ 19 کے سپریٹنڈنٹ انجینئر ناظم شیخ جو اس پرکشش عہدے پر تعینات کے منتظر تھے انہیں فوری تعینات کردیا گیا ہے۔ ان کا تقرر نامہ NO,SO(A-III)(SGA&CD)=2/72015(LG-08) بتاریخ 19نومبر 2023ء کو سندھ حکومت نے جاری کیا ہے جو سراسر غیر قانونی ہے۔یاد رہے کہ حنیف بلوچ کے پاس عارضی عہدہ نہیں تھا وہ گریڈٖ 20 کے مستقل بنیاد پر پروجیکٹر ڈائریکٹر تعینات ہوئے تھے اور ادارہ کے مستقل چیف انجینئر (سول) ہیں۔ان کی تقرری بھی کارپوریشن بننے سے قبل سندھ حکومت نے 9 مارچ 2023ء کو حکمنامہ کے ذریعے کی تھی۔سندھ ہائی کورٹ میں حنیف بلوچ نے اس حکمنامے کو چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ یہ گریڈ 20 کی پوسٹ ہے اس لیئے اس پر او پی ایس افسر تعینات نہیں ہو سکتا۔اس حکمنامہ میں جونیئر افسرکی تقرری کے لئے سینئر افسر کو نیچے دکھانا غلط ہے اس لیئے فوری طوربپر اس حکمنامے کو کالعدم کیا جائے۔ سندھ حکومت نے ایک حکمنامہ اور جاری کیا ہے ان میں چیف انجینئر (سول)گریڈ 20 خرم شہزاد کو ٹریٹمنٹ پلانٹ(TP-IV)کورنگی کریک کا پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا ہے وہ ورلڈ بینک کے منصوبے میں کراچی واٹر سیوریج سسٹم انویسٹمنٹ پروجیکٹ میں فرائض ادا کررہے ہیں جبکہ حکومت سندھ نے ایک حکمنامہ کے تحت کارپوریشن کے گریڈ 20 کے چیف انجینئر اسپیشل سیکریٹری ڈیولپمنٹ (ٹیکنکل) اویس ملک کو ہٹا کر ان کی جگہ گریڈ 20 کے افسر غلام سرور چاچڑ کو تعینات کردیا گیا ہے۔ وہ جوائننگ کے بعد طویل رخصت پر چلے گئے ہیں۔ اویس ملک آر او پلانٹ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہیں نئی ذمہ داری ملنے کی توقع ہے۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف ایگزیکٹو آفیسر صلاح الدین کے غیر ملکی دورے سے واپسی پر افسران کے بڑے پیمانے پر تبادلے و تقرری کے امکانات ظاہر کیئے جارہے ہیں۔حنیف بلوچ ادارے میں گریڈ 20 کے سینئر آفیسر ہیں جو اگلے سال فروری 2024ء میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہوجائیں گے وہ ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ٹیکنیکل سروسز کی تنخواہ وصول کررہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کارپوریشن سے قبل سندھ حکومت کی ہدایت پر آئے دن افسران کے تبادلے و تقرری کی جارہی تھی۔ واٹر کارپوریشن کے ایکٹ کی منظوری کے بعد تبادلے تقرری کے ساتھ تمام امور کی ذمہ داری کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ذمہ داری ہے۔ انہی کی سفارش پر افسران کے تبادلے و تقرری کی جائے گی۔اگر سندھ حکومت کی مداخلت کو نہ روکا گیا تو سندھ حکومت آئندہ تمام افسران کے تبادلے و تقرری کرنے اور آئے دن مداخلت جاری رکھے گی۔ ایک ایسے موقع پر جب چیف ایگزیکٹیو آفیسر بیرون ملک دورے پر ہیں،تیزی سے افسران کو ہٹانے اور تبادلے و تقرری کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے حتمی فیصلے سندھ ہائی کورٹ سے جاری ہونے کے امکانات ہیں۔