قحط الرجال کے اس عہد میں بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی روپ میں "عہد رفتہ” کے "نایاب لوگ” مل ہی جاتے ہیں۔۔۔۔۔وہ لوگ جن کے بارے کہا جاتا ہے:
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
بھیس بدلے یہی وہ بے مثال لوگ ہیں جن کے دم قدم سے معاشرے آباد اور شاد ہیں۔۔۔۔۔۔صحافتی کیرئیر کے بہترین دوست جناب حافظ ظہیر اعوان کو بچھڑے دو سال ہو گئے۔۔۔۔۔۔کیا ہی با وقار آدمی تھے۔۔۔۔اپنوں اور بیگانوں سے "عہد وفا” نبھاتے نبھاتے "نڈھال” اور پھر "زائل” ہو گئے۔۔۔۔۔حافظ صاحب کو "داغ مفارقت” دیے کچھ مہینے ہوئے تھے کہ مجھے "ہمارے مشترکہ دوست”جناب شفیق بھٹی کا فون آیا کہ آپ سے ضروری ملنا ہے۔۔ہم تئیس سال سے دوست ہیں۔۔۔۔۔بھٹی صاحب کی حافظ صاحب سے مجھ سے بھی زیادہ فرینک نیس تھی اور وہ ان پر جان وارتے تھے۔۔۔۔۔۔
بھٹی صاحب ملے تو بتایا کہ لاہور پریس کلب کی” مچ گیلری”پر اردو کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر جناب رضی حیدر تشریف لاتے ہیں۔۔۔۔وہ حافظ صاحب کے ملنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ حافظ صاحب کی ایک امانت واپس کرنی ہے۔۔۔۔کوئی ایسا بندہ بتائیں جو یہ امانت ان کے اہل خانہ تک پہنچا دے۔۔۔۔میں نے ان کو آپ کا بتایا ہے۔۔۔۔یہ ایک لاکھ روپے کا چیک تھا۔۔۔۔حافظ صاحب من چلے آدمی تھے۔۔۔۔کسی نے جو کہا مسکراتے ہوئے مان لیا۔۔۔۔۔۔۔بھٹی صاحب کے مطابق کسی شاعرہ نے ان سے کہا میری کتاب چھپوادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔حافظ صاحب نے ہاں کردی اور پروفیسر کے توسط سے ایک پبلشر کو ایک لاکھ روپے دیدیے۔۔۔۔کسی وجہ سے وہ کتاب نہ چھپی اور وہ رقم پبلشر کے پاس پڑی تھی۔۔۔۔۔
پروفیسر صاحب کو حافظ صاحب کی وفات کا پتہ چلا تو وہ بے قرار ہو گئے۔۔۔۔۔وہ فوری طور پر پبلشر کے پاس گئے اور ایک لاکھ کا چیک بنوا لائے۔۔۔۔وہ یہ چیک حافظ صاحب کی فیملی کو بھجوانا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔ان دنوں بھٹی صاحب بے روزگاری کی وجہ بدترین مالی بحران کا شکار تھے اور انہیں پائی پائی کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے خود چیک لینے کے بجائے میرا نام دے دیا۔۔۔۔۔میں نے چیک وصول کیا اور حافظ صاحب کے چھوٹے بھائی طاہر اعوان کو بلا بھیجا۔۔۔۔وہ اپنے بھانجے سجاول کے ساتھ میرے پاس لاہور پریس کلب آئے۔۔۔۔میں نے چیک ان کے حوالے کیا اور ان سے چیک کی فوٹو کاپی پر وصولی کے دستخط لیکر پروفیسر صاحب کو بھجوادیے۔۔۔۔مجھے پروفیسر صاحب اور بھٹی پر رشک آیا کہ اس زمانے میں بھی پرانے زمانے کے ان لوگوں کی جھلک ہے جن کی ایمانداری کی زمانے مثالیں دیتے ہیں۔۔۔۔۔اس گئے گزرے دور میں ایسے غیر معمولی واقعے کے بعد مجھے پروفیسر صاحب کو ملنے کا اشتیاق بڑھا۔۔۔۔۔۔۔میں ایک شب بھٹی صاحب کے ساتھ پروفیسر صاحب کی دست بوسی کے لیے مچ گیلری گیا۔۔۔۔میں نے پروفیسر صاحب سے مصافحہ کیا۔۔۔۔گلے ملا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔پھر میں مچ گیلری کے الائو سے کچھ دور کتنی ہی دیر ان کی خدمت میں بیٹھا رہا کہ وہ اس قابل ہیں کہ ان کی صحبت میں بیٹھا جائے۔۔۔۔۔۔!!!