اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت اوروزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کردی ہیں۔وزارت دفاع کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ آرمی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، نیز آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی سیکشن 59 (4) بھی بحال کی جائیں۔وزارت دفاع نے اپیلوں پر حتمی فیصلے تک فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔دوسری جانب وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل کے ذریعے دائر انٹرا کورٹ اپیل میں استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار جائے اور عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ معطل کیا جائے۔اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالت کے ٹرائل کے دوران فوجداری اور سول قانون کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ کورٹ مارشل کا ٹرائل بالکل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح ایک سیشن جج ٹرائل کرتا ہے،کورٹ مارشل سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ 9مئی کے واقعات کی روشنی میں 139گاڑیاں بشمول 98 سرکاری گاڑیاں جزوی یا مکمل تباہ ہوئیں۔ 9مئی کے واقعات کے سبب 2539.19ملین کا نقصان ہوا، جس میں 1982.95ملین کا نقصان فوجی تنصیبات اور گاڑیوں کو پہنچا۔وفاقی حکومت کی اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون درست قرار دے کر اطلاق21اپریل 2023سے کیا۔ عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں سننے والے بنچ کی تشکیل ہی درست نہیں تھی۔ 9مئی کو جو واقعات ہوئے وہ جرائم سول نوعیت کے نہیں بلکہ ملٹری نوعیت کے ہیں۔ 9مئی کے واقعات کا براہ راست تعلق ملکی سلامتی سے ہے۔اپیل میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ عدلیہ کے آئینی اختیار سے باہر ہے۔ آئین میں سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور ذیلی عدالتوں کا ذکر ہے۔ فوجی عدالت کا فیصلہ بدنیتی پر مشتمل ہونے کی صورت میں ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ تفصیلی فیصلہ آنے پر وفاقی حکومت اضافی گزارشات پیش کرنے کی حقدار ہے۔وفاقی حکومت نے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ کے 23اکتوبر کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔