اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کوفیض آباد دھرناکے حوالے سے تمام ترمعاملات پر کمیشن کے تحت تحقیقات کرنے کی اجازت دیتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کوہدایت کی ہے کہ ٹی او آرز میں شامل کرائیں گے کہ نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا حادثہ تھا یا کسی کی ہدایت پر دائر کی گئی تھیں۔جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس سے متعلق سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ فیصلوں سے پہلے بھی فیصلے ہوتے ہیں؟،جو یہ سمجھتا ہے عدالتیں کنٹرول ہورہی تھیں، یہ کیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے، معلوم سب کو ہے کہ کون سب کچھ کررہا تھا۔لیکن نام لینے کی ہمت کسی میں نہیں۔ملک کا دشمن کوئی بیرونی نہیں، ملک کے اندرسب خود ہی دشمن ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیںکہ ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا چاہے، ہم سے وہ کام نہ کروائیں جوکبھی 184 کی شق کے اختیار کا استعمال کر کے ماضی میں ہوتا رہا، عدالت نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیداحمدکی جانب سے درخواست واپس لینے کی بنیادپرخارج کردی ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی،اٹارنی جنرل، شیخ رشید اور ان کے وکیل پیش ہوئے ۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے شیخ رشید کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ نے نظرثانی دائر کیوں کی تھی؟ اس پر ان کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں کی رپورٹ سے کچھ غلط فہمیاں ہوئیں جس پرنظرثانی دائرکی۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہاں کوئی سچ نہیں بولتا،سب کو پتہ ہے کس کے کہنے پر نظر ثانی اپیلیں دائر ہوئیں،نام لینے سے ڈرتے ہیں،سوسال بھی گزر جائیں شیخ رشید سچ نہیں بولیں گے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر اپیلیں دائر کیں، پاکستان مذاق تو نہیں ہے، اس ملک کو مذاق نہ بنایا جائے کہ جو دل چاہے کریں، پورے ملک کو نچوایا پھراوپرسے حکم آیا تو نظرثانی واپس لینے کا کہہ دیا، نظرثانی دائرکرنا تو ٹھیک ہے مگر4 سال بعد واپس لینا عجیب فیصلہ ہے۔عدالت نے شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ججز سمیت سب لوگ قابل احتساب ہیں، ایسا تاثرہے کہ سپریم کورٹ بھی باہر سے کنٹرول ہورہی ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں کیس میں فلاں فیصلہ ہوگا، عدالت میں سچ کوئی نہیں بولتا کہ کس کے کہنے پرنظرثانی درخواست کی، نفرتیں پھیلاکرپھر لوگ خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں، سڑکیں بند کرنے اوراملاک جلانے والوں کو ہیروکہا جاتا ہے، پہلے دھرنے کے حق میں بیانات دیئے، اب عدالت آکرکہہ رہے ہیںہم کیس نہیں چلاناچاہتے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ملک کی مزید خدمت کریں گے اگر موقع ملا تو؟ اس پر شیخ رشید جواب دینے کیلئے روسٹرم کی طرف بڑھے تو چیف جسٹس نے روک دیا اور کہا کہ ہم آپ سے نہیں آپ کے وکیل سے بات کررہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ پھرسے عوام کی خدمت کریں گے یا گھربیٹھ کراللہ اللہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ یہاں کیس مقرر ہونا بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے، میں توسمجھتا ہوں سب سے زیادہ قابل احتساب ہم ہیں، یہاں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سا کیس مقرر ہونا ہے اورکون سا دبانا ہے، یہاں یہ طے کیا جاتا ہے کہ آج درخواست آئی ہے توکل مقررکرنی ہے، عدالتیں اب ایسے نہیں چلیں گی۔شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ آج کل تو عدالتوں کا یہی حال ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل نہیں، یہ مارچ 2018 کی بات ہورہی ہے، فیصلوں سے پہلے بھی فیصلے ہوتے ہیں؟،جو یہ سمجھتا ہے عدالتیں کنٹرول ہورہی تھیں، یہ کیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے، معلوم سب کو ہے کہ کون سب کچھ کررہا تھا لیکن نام لینے کی ہمت کسی میں نہیں، ملک کی دنیا میں جگ ہنسائی کا سامان بنادیا گیا، ملک کا دشمن کوئی بیرونی نہیں، ملک کے اندرسب خود ہی دشمن ہیں۔اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شیخ رشید کا نام آئی ایس آئی کی رپورٹ میں تھا، شیخ رشید خود پارلیمنٹیرین تھے،کیوں آئی ایس آئی کےخلاف کارروائی نہیں کی؟اس دوران اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کردیا اور بتایا کہ انکوائری کمیشن فیض آباد دھرنے کے محرکات کی تحقیقات کرے گا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ انکوائری کمیشن میں وزارت دفاع کے کسی نمائندے کوکیوں شامل نہیں کیا گیا؟ حکومتی کمیشن یا تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ہے یا پھر نئی تاریخ لکھے گا، ہمیں امید ہے انکوائری کمیشن آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرےگا، ٹی او آرز میں یہ کیوں نہیں کہ کیسے ایک ساتھ 9 نظرثانی درخواستیں دائرکی گئیں؟ ٹی او آرز میں لیں کہ ایک ساتھ نظرثانی درخواستیں دائرہونا حادثہ تھا یاکسی ہدایات پرہوا؟عدالت نے وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز میں ایک اضافہ کرنے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے چار سال گزر گئے ساٹھ دنوں میں دیکھ لیتے ہیں، حاضر سروس بارے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس کی سروس متاثر ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے ابصار عالم سے مکالمہ کیا کہ اپنے خدشات کو ابھی محفوظ رکھیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا چاہے، ہم سے وہ کام نہ کروائیں جو کبھی 184 کی شق کے اختیار کا استعمال کر کے ماضی میں ہوتا رہا، ہوسکتا ہے ساٹھ دنوں میں آپ کی بات سچ نکل آئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ امید پر دنیا قائم ہے، ہم. پہلے سے ہی شک نہیں کرسکتے، سچ تو تفتیشی بھی نکال سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن پیش کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی او آرز میں شامل کیا جائے گا کہ نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا حادثہ تھا یا کسی کی ہدایت، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹی او آرز ایک ہفتے میں شامل کر لیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اب کیس دو ماہ بعد سنیں گے، جس پر اٹارنی جرنل نے استدعا کی کہ سماعت 20 جنوری کے بعد کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو استثنی نہیں سب کو کمیشن بلا سکتا ہے، حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن ابصار عالم کے نام لیے گئے افراد کو بھی بلانے کا اختیار رکھتا ہے۔ عدالت نے مزید سماعت 22 جنوری 2024 تک ملتو ی کر دی۔