یہودیوں میں نسلی تقسیم کی بنیاد پر صرف یہی تین گروہ نہیں ہیں مگر بڑے گروہ یا قابل ذکر یہی ہیں ۔ جس میں اشکنازی آج کل قوت میں ہیں اور یہودیوں اور اسرائیل کی ڈرائیونگ سیٹ ان ہی کے پاس ہے ۔ یوں سمجھ لیں کہ خازارز یا تاتاری ہی دنیا کو چلا رہے ہیں ۔ مزید گفتگو سے قبل ایک چھوٹی سی وضاحت ۔ دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ یہودی تبلیغی مذہب نہیں ہے ۔ ان کے ہاں وہی شخص یہودی ہوسکتا ہے جس کی ماں یہودی ہو تو پھر یہ خازارز نے کس طرح سے یہودی مذہب اختیار کرلیا ۔
یہ ایک طرح کی غلط فہمی ہے جس پر ہمارے ہاں ہر شخص کو بھرپور یقین ہے کہ کوئی شخص یہودی مذہب اختیار نہیں کرسکتا ہے ۔ کچھ ایسی ہی غلط فہمی آغا خانی مذہب کے بارے میں بھی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہودی اور آغا خانی مذاہب نے اپنے پیروکاروں میں اضافے کو انتہائی regulate کر رکھا ہے اور وہ ہر کس و ناکس کو اپنی برادری میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے ۔ مگر جہاں پر وہ ضروری سمجھتے ہیں ، وہاں پر وہ اپنے مذہب میں داخلے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ۔ اسے اس طرح سے سمجھیں کہ آغا خان کی پوری دلچسپی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ہے ۔ وہ وہاں پر اپنی ریاست کا قیام چاہتا ہے ۔ اس کے لیے اس نے ہنزہ میں ہر شخص کو آغا خانیت میں داخلے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے مالی فوائد بھی پیش کیے مگر ہنزہ کے علاوہ کسی اور کو وہ آغا خانیت میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے ۔ آج آپ کو پورے ہنزہ میں کسی بھی مسلم مسلک کی ایک بھی مسجد نہیں ملے گی ۔ نہ شیعہ کی اور نہ سنی کی اور نہ ہی کہیں سے اذان کی آواز سنائی دے گی مگر آپ کو ہر آبادی میں جماعت خانہ ضرور ملے گا ۔ ان کے اہم قصبات کے نام ہی کریم آباد اور علی آباد ہیں ۔
کچھ یہی صورتحال یہودیت کے بارے میں ہے ۔ اسلام اور عیسائیت کی طرح ہر کسی کو ان کے مذاہب میں داخلے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس کا فیصلہ انتہائی بالائی سطح پر کیا جاتا ہے کہ کس کو یہودیت اختیار کرنے کی اجازت دینی ہے اور کسے نہیں ۔ اور پھر جس طرح سے اسلام اور عیسائیت میں کلمہ پڑھتے ہی یا baptise ہوتے ہی بندہ مسلمان یا عیسائی ہو جاتا ہے ، یہودیت میں نہیں ہے بلکہ اسے باقاعدہ کورسز کروائے جاتے ہیں اور اس کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے ، اس کے بعد اسے یہودیت اختیار کرنے کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ جس زمانے میں تاتاری یہودیت قبول کررہے تھے ، اس زمانے میں ایسی کوئی شرط عاید نہیں تھی اور اسلام اور عیسائیت کی طرح کوئی بھی شخص فوری طور پر یہودی مذہب اختیار کرسکتا تھا ۔ بلکہ ایک زمانے میں تو اس بات پر فخر کیا جاتا تھا کہ کسی دوسرے مذہب کا کوئی شخص یہودی ہوگیا ۔ ان کی مقدس کتابوں میں ایک کتاب روت بھی ہے ۔ یہ عبرانی بائبل کا حصہ ہے ۔ روت ایک چھوٹی سی کتاب ہے جس میں ایک خاتون روت کا مثالی کردار پیش کیا گیا ہے ۔ یہ خاتون بحیرہ مردار کے مشرق میں واقع علاقے موآب کی رہنے والی تھیں اور ایک یہودی خاندان میں شادی کرلینے کے باعث قوم یہود میں شامل ہوگئی تھیں ۔ انہوں نے اپنے پہلے خاوند کی وفات کے بعد اپنے ایک اور رشتہ دار بوعز سے شادی کرلی تھی جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ یہ لڑکا حضرت داود کا دادا تھا ۔
یہودیوں کی نسلی و طبقاتی تقسیم تو گزشتہ ایک ہزار برس قبل وجود میں آئی ۔ اس سے قبل تو یہ عرب اور شمالی افریقا کے ہی رہنے اور بسنے والے تھے تاہم ان کی مذہبی تقسیم انتہائی قدیم ہے ۔ مذہبی طور پر یہودیوں کے جتنے فرقے ہیں ، اتنے تو مسلمانوں میں بھی نہیں ہیں ۔ خود یہودیوں کا بطور پھبتی کہنا ہے کہ ان کا پہلا ہیکل تقریبا دو سو برس تک قائم رہا اور دوسرا تقریبا چھ سو برس تک ۔ اگر تیسرا ہیکل بن بھی گیا تو چالیس برس سے زاید نہیں رہے گا اور یہودیوں کا کوئی نہ کوئی فرقہ ہی اس کی تباہی کا باعث بنے گا ۔
مذہبی طور پر یہودیوں کے دو بڑے فرقے ہیں ۔ ایک فریسی (Pharisees) اور دوسرا صدوقی (Sadducees) ۔ ایک تیسرا فرقہ اور بھی تھا جس کا نام ایس اینز (Essenes) تھا ۔ یہ بحیرہ مردار کے ساتھ وادی قمران میں رہتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت طالوت علیہ السلام کی قوم سدوم پر عذاب آیا تو یہ پوری قوم بھی بحیر ہ مردار میں غرق ہوگئی ۔ 1947 میں بحریرہ مردار کے کنارے چند اردنی چرواہوں کو ایک غار سے تورات ودیگر کتب اتفاقا دریافت ہو گئیں جس سے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں ۔ تورات کی یہ کتب دستیاب قدیم ترین کتب میں شمار کی جاتی ہیں ۔ یہ فرقہ قیامت پر اور دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پر یقین نہیں رکھتا تھا ۔ یہودیوں میں اس وقت غالب فرقہ فریسی ہے ۔ جو روایات پر تشدد کی حد تک یقین رکھتا ہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی انہوں نے کھانے پر مدعو کیا تھا ۔ جب فریسیوں کی روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ نے کھانے سے قبل ہاتھ نہیں دھوئے تو انہوں نے اس کا سخت برا منایا تھا ۔ ان تین بڑے فرقوں کے علاوہ بھی سیکڑوں چھوٹے چھوٹے فرقے موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر فرقہ سامریہ محض آٹھ سو افراد پر مشتمل ہے ۔
طالبان ٹائپ کے متشدد فرقے بھی موجود ہیں ۔ ان میں سے ایک لیو طہور کا گزشتہ دنوں بڑا شہرہ رہا ۔ یہ بچوں اور بچیوں کو زبردستی مدرسے ٹائپ جگہوں پربے انتہا حدود و قیود میں رکھتے ہیں ، کم سنی میں ہی ان کی زبردستی شادیاں کردیتے ہیں ۔ ان بچوں کے ساتھ ربی جنسی زیادتیاں بھی کرتے ہیں ۔ امریکا میں شور مچنے اور سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اب یہ میکسیکو منتقل ہوگئے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ کوئی بھی مذہب ہو، ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان کے مذہبی ٹھیکیدار وں کا پسندیدہ مشغلہ کمسن لڑکوں کے ساتھ جنسی بدفعلی ہے ۔ چاہے یہ مولوی ہوں ، ربی ہوں ، پادری ہوں یا پنڈت۔ اس کے لیے ان کے پاس تاویلیں بھی موجود ہوتی ہیں ۔
یہودی فرقے بہت طویل موضوع ہے ۔ چونکہ میرا موضوع یہودیت نہیں بلکہ یہودی ہیں ۔ اس لیے اس موضوع پر گفتگو کبھی اور آئندہ ۔ میں تو یہودیوں کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ یہ ایک متحد قوم نہیں ہے ۔ یہ فرقوں میں بھی بٹے ہوئے ہیں او ر نسلی طور پر بھی تقسیم ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ ایک بیمار قوم ہے ۔ یہاں پر منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان میں اتنی تقسیم در تقسیم ہے اور یہ ایک دوسرے کے خون کے اتنے پیاسے ہیں تو اسرائیل میں کیوں کر متحد ہیں ۔
گزشتہ دو ہزار برس کی یہودی تاریخ پڑھ لیں ۔ یہ ایک راندہ درگاہ قوم ہے ۔ ان پر جو بھی مظالم ہوئے ، وہ عیسائیوں نے کیے ۔مسلمانوں نے تو ہمیشہ انہیں عیسائیوں کے مظالم سے بچاو کےلیے چھتری فراہم کی اور انہیں تحفظ دیا ۔ یہاں پر یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انہیں انتقام تو عیسائیوں سے لینا چاہیے ، تو پھر مسلمان ان کا نشانہ کیوں ؟
دنیا بھر میں اس وقت مسلمان شدید ابتلاء کا شکار ہیں ۔ اور اس کے ذمہ دار یہودی ذہن کے ساتھ ساتھ عیسائی ممالک ہیں ۔ یہاں پر تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عیسائی آخر کیوں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کررہے ہیں ۔ ان تمام سوالات پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔