کراچی (ادبی رپورٹر ) معروف شاعر اور دانشور پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ آئندہ ہر سال ۱۱نومبر کو دنیا بھر میں افسانے کا عالمی دن منایا جائے گا، افسانے کی صنف کو مقبول بنانے کے لئے مکمل توجہ کے ساتھ اس تحریک کو آگےبڑھایاجائے، سوا سو سال قبل وجود میں آنے والی ادب کی اس انتہائی اہم صنف کو تناور درخت بننا ہے، کراچی میں افسانے کی نشستیں رکھنے کی روایت تھی جسے دوبارہ زندہ کرکے عام لوگوں تک پہنچانے میں چاک ادبی فورم کی خدمات قابل ستائش ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے چاک ادبی فورم کے زیر اہتمام سٹی اسپورٹس کمپلیکس، کشمیر روڈ میں منعقد ہونے والی دو روزہ اردو افسانہ کانفرنس کی اختتامی تقریب صدارت کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر چیئر پرسن چاک ادبی فورم صائمہ صمیم، ڈاکٹر اوج کمال، ،ڈاکٹر عقیل عباس جعفری، ضیاء ابڑو، علی حسن ساجد، یاسمین یاس ،اور دیگر اہل علم ودانش بھی موجود تھے، صدر مجلس پروفیسر سحر انصاری نے منتظمین کو دو روزہ اردو افسانہ کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس دوران بڑی تعداد میں سامعین اور افسانہ نگاروں کی شرکت باعث تقویت ہے جس سے افسانے کا مستقبل روشن نظر آتاہے، انہوں نے چاک ادبی فورم کے آئندہ پروگرامز کو خوش آئند قرار دیا، اختتامی تقریب میں ”افسانہ کی سالگرہ“ کا کیک بھی کاٹا گیا، چاک ادبی فورم کی چیئرپرسن صائمہ صمیم نے کانفرنس کے دوران منعقد کئے گئے مختلف سیشنزکی تفصیلات بتائیں اور افسانے کی تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے قراردادیں پیش کیں، انہوں نے کہاکہ کانفرنس میں اہل علم دانش اور خصوصاً افسانہ نگاروں کی بڑی تعداد نے اپنے مضامین، مقالہ جات پیش کیےاور اپنے خیالات کا اظہار کیا ، چاک ادبی فورم نے افسانہ نگاروں کو گوشہ گمنامی سے نکالنے اور افسانے کو مقبول بنانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے اور اس کیلئے ڈیجیٹل سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا ، گزشتہ سال کی کانفرنس سے جو فیڈ بیک ملا اس کی روشنی میں اس سال کراچی کے تمام افسانہ نگاروں کو یہاں اکھٹا کیا اور انہیں ایک پلیٹ فارم مہیا کیا، یہ سب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ افسانے کی جس جہت سے بھی جو شخص جڑا ہوا ہے ہمارے ساتھ جڑ جائے، ہم نے افسانے چھپوائے ہیں اور آئندہ بھی اسے جاری رکھیں گے، اسکولوں اور کالجز تک جائیں گے تاکہ لوگوں کو پڑھنے کے مواقع فراہم کریں،ڈاکٹر اوج کمال نے کہاکہ افسانے کے تمام پہلوؤں پر بھرپورگفتگو ہوئی اور سامعین کو بہت کچھ جاننے کا موقع ملا، چاک ادبی فورم نے جو پودا لگایا اس کی آبیاری پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس کانفرنس کی شہر میں دھوم ہے اور یہ اس کی کامیابی کی ضمانت ہے، ضیاء ابڑو نے کہاکہ کانفرنس کے دوران ہم دو روز تک افسانے کے سحر میں مبتلا رہے، ڈیجیٹل دور میں دوبارہ پڑھنے کی عادت بیدار ہورہی ہے جو خوش آئند ہے، امید ہے آئندہ کانفرنس اور بھی زیادہ کامیاب رہے گی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر ڈائریکٹر اطلاعات و طباعت میڈیا مینجمنٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی علی حسن ساجد نے کہاکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی شہر کی ترقی کیلئے ہی کام نہیں کرتی بلکہ علم ادب کی پذیرائی میں بھی پیش پیش رہتی ہے، افسانہ کانفرنس کے حوالے سے کے ایم سی چاک ادبی فورم کے شانہ بشانہ رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی، میئر کراچی بیرسٹرمرتضیٰ وہاب اور میونسپل کمشنر سید افضل زیدی نے اس سلسلے میں بھرپورتعاون کی ہدایت کی ہے، آئندہ سال اردو افسانہ کانفرنس میں کسی ایک افسانہ نگار کو ایک لاکھ روپے کیش اور ایوارڈ پیش کیا جائے گااور افسانے پر مبنی کوئی ایک کتاب بھی شائع کی جائے گی، چاک ادبی فورم کی تجویز پر کراچی کی کسی سڑک، شاہراہ، پل یا عمارت کو کسی افسانہ نگار سے منسوب کیا جائے گا اور سٹی کونسل سے اسکی باقاعدہ منظوری لی جائے گی ، سٹی اسپورٹس کمپلیکس سے ملحقہ پاک چائنا فرینڈ شپ پارک میں کے ایم سی کی قرارداد کے مطابق ایک گوشہ ممتاز افسانہ نگار اسد محمد خان سے منسوب کی جاچکا ہے، انہوں نے کہاکہ اس کانفرنس کو جن اداروں کا تعاون اور سرپرستی حاصل رہی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، قبل ازیں کانفرنس کے دوسرے دن مختلف سیشنز منعقد ہوئے پہلے سیشن میں افسانچہ پر گفتگو کی گئی، دوسرے سیشن میں مختلف افسانہ نگاروں کی تصانیف کا تعارف اور تبصرہ پیش کیا گیا جس میں مہ جبیں آصف کی پہلی چپ کا شور، رحمن نشاط کی مٹھی بھرزندگی اور کرن نعمان کی کتاب عکس باطن شامل تھیں، افسانہ نگاروں نے اس دوران اپنی تخلیق کا پس منظر، محرک اوربنیادی خیال بیان کیا اور سامعین کو اس کے منتخب حصے پڑھ کر سنائے، تیسرے سیشن علامتی افسانہ میں شرکاء نے افسانے کی اس قسم پرتفصیلی روشنی ڈالی اور سامعین کے سوالوں کے جواب دیئے، پاپولر فکشن کے موضوع پر چوتھے سیشن کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی، شرکاء نے کہا کہ پاپولر فکشن کی مقبولیت کے باعث معاشرے میں اس کا ایک خاص مقام ہے تاہم پاپولر فکشن لکھنے والوں پر بھاری ذمہ داری عا ئد ہوتی ہے کہ وہ معیار پر سمجھوتہ نہ کریں اور معاشرے کی برائیوں کو بیان کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، ادب کو مخصوص طبقے تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ قاری میں پڑھنے کی عادت کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کرنے ضروری ہیں، پاپولر فکشن اور ادبی تحریر کے درمیان فرق کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔