مکہ مکرمہ میں اقامت پذیر نامور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ کی "ذرہ نوازی” کہ گاہے "یاد” کر لیتے ہیں۔۔۔۔اگلے دن صبح سویرے” ٹیلی فونک رابطہ” ہوا تو اظہار تشکر میں اشکبار ہو گئے۔۔۔۔بتانے لگے ابھی ابھی پندرہ سال کی "محنت شاقہ” رنگ لائی اور کلام اللہ کا”قرآن مجید مع اردو ترجمہ”کے عنوان سے ترجمہ تکمیل کو پہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا زہے نصیب کہ ہم بھی آپ کے "ختم ترجمہ قرآن”میں شریک ہوگئے۔۔۔ڈاکٹر صاحب علمائے کرام کے تاحد نگاہ”اجتماع”میں منفرد عالم دین ہیں۔۔۔سب سے بڑی انفرادیت یہ کہ وہ "درباری”نہیں”احراری”ہیں۔۔احرار کیا ہیں؟تاج برطانیہ کے بعد اس کے”خود کاشتہ پودے” کے بھی سب سے بڑے "مزاحمت کار”۔۔۔۔۔۔وہ "ادب” کے باب میں بھی منفرد ہیں۔۔۔۔۔چاہے وہ احترام کے ضمن میں ہو یا لٹریچر کا مفہوم دیتا ہو۔۔۔۔۔ان کا "منفرد اسلوب” میں قرآن مجید کا ترجمہ تو ہر دو معنوں میں ادب کا شاہکار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ختم نبوت سے متعلقہ اہم موضوعات سمیت کئی منفرد کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں سے ایک کا دیباچہ امام کعبہ الشیخ عبد الرحمان السدیس نے تحریر کیا جبکہ ایک کتاب کی تقریظ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم جناب ابو القاسم نعمانی نے لکھی ہے۔۔۔وہ مکہ مکرمہ کے مدرسہ صولتیہ کے سابق شیخ الحدیث اور مولانا عبد الحفیظ مکی نور اللہ مرقدہ کے بعد انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے دوسرے مرکزی امیر ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر سعید عنایت اللہ کی یہ انفرادیت بھی ان کا "شملہ” اور اونچا کر دیتی ہے کہ وہ پاکستان کے بڑے سیاسی خاندان سے گہرے مراسم رکھتے ہیں لیکن کبھی "شاہ کے مصاحب” بنے ہیں نہ کبھی اس "قرب” پر اترائے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کبھی فخر کیاہے تو اس اعزاز پر کیا ہے کہ وہ عالم دین اور انبیائے کرام کے وارث ہیں۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ عالم دین سے عالی شان کوئی منصب ہے نہ محراب سے بڑا کوئی ایوان اور منبر سے بڑی کوئی مسند۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب شریف فیملی کے "انتہائی قریب” ہونے کے باوجود "کوسوں دور” بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔قریب اتنے کہ میاں نواز شریف اکیس اکتوبر کو وطن واپسی سے پہلے ان سے جدہ میں خصوصی طور پر "راز و نیاز” کرکے آئے۔۔۔۔۔۔۔شاید یہ ان سے ملاقات کا "اثر” ہی تھا کہ مسلم لیگ ن کے مینار پاکستان جلسے میں "اسلامی رنگ” غالب رہا۔۔۔۔۔جلسے میں آیت ختم نبوت”ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین۔۔۔و کان اللہ بکل شیء علیما”کی تلاوت نے دل موہ لیے جبکہ جناب احمد ندیم قاسمی کی ایمان افروز نعت کے اس مقطع نے بھی سماں باندھ دیا۔۔۔۔
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا
تلاوت اور نعت کے بعد میاں نواز شریف نے فلسطین کا پرچم بھی لہرایا۔۔۔۔ن لیگی بیانیے کے یہ غیر معمولی "خدوخال” حیران کن تھے۔۔۔۔۔دائیں بازو کے شریف برادران کی "بنیاد”تو یہی ہے لیکن نا جانے وہ کچھ عرصہ بائیں بازو کے "کلاوے” میں کیوں آگئے؟؟؟ڈاکٹر سعید عنایت اللہ شریف فیملی کو "اسلام پسند خاندان”کے باعث پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ محترمہ کلثوم نواز کے مداح ہیں۔۔۔۔۔ بتاتے ہیں کہ کلثوم بی بی نے ان سے قرآن کا ترجمہ پڑھا اور انہیں کلام اللہ سے بے حد لگائو تھا۔۔۔۔وہ بیگم شمیم صاحبہ کی بھی تعریف کرتے ہیں کہ وہ پیرانہ سالی میں بھی قرآن کی تلاوت کرتی تھیں۔۔۔وہ اسما نواز کو اپنی ہونہار دینی شاگرد قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔وہ شہباز شریف کے بھی عربی کے استاد گرامی ہیں۔۔۔۔۔وہ نواز شریف کو بہترین دوست اور حسین نواز کو برخوردار سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔دوسری جانب شریف خاندان سے ان کی "دوری”بلکہ "بے نیازی” کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے شاگرد رشید شہباز شریف کی حکومت کے سولہ ماہ میں پاکستان ہی نہیں آئے۔۔۔۔۔۔جب ان کے دوست نواز شریف وزیر اعظم تھے تو وہ تب بھی پاکستان آنے سے گریز پا ہی رہے۔۔۔۔۔۔کبھی باامر مجبوری پاکستان آئے بھی تو کسی "محل” کے بجائے اپنی مادر علمی جامعہ اشرفیہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہی ٹھہرے۔۔۔۔۔۔۔چاہتے تو "وزیر مشیر” بن جاتے مگر وہ "ایوان اقتدار” سے دور ہی رہے کہ "احراری”ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔منہ پر دوستوں کی اصلاح اور پیٹھ پیچھے دفاع بڑے لوگوں کی منفرد ادا ہوتی ہے اور یہ خوبی ڈاکٹر صاحب میں بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔۔۔۔نواز شریف کیخلاف پانامہ کیس چلا تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بھاگے چلے آئے اور 32دن ان کے شانہ بشانہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شنید ہے کہ وزارت عظمی چھن جانے کے بعد نواز شریف کی جی ٹی روڈ سے لاہور واپسی بھی ڈاکٹر صاحب کی تجویز تھی۔۔۔۔۔یہی نہیں ڈاکٹر صاحب اکابر علمائے کرام کے دفاع میں بھی کئی بار خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔۔۔یادش بخیر۔۔۔۔یہ دو ہزار آٹھ نو کی بات ہے کہ کراچی کے "چند علمائے کرام” کو نا جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ایک بزرگ عالم دین کی” آڑ” لیکر اسلامی بینکاری کیخلاف "طبل جنگ”بجا دیا اور ایک بڑے قومی اخبار نے اس "مہم” کو اپنے صفحہ اول پر چھاپ بھی دیا۔۔۔۔۔۔۔۔میں عزت مآب ڈاکٹر احمد علی سراج کے ساتھ سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے شکرگڑھ جا رہا تھا کہ ڈاکٹر سعید عنایت اللہ کا فون آگیا۔۔۔۔کہنے لگے کہ "کچھ لوگوں” نے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی صاحب اس حوالے سے کافی مشوش ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر احمد علی سراج کویت بینک میں اسلامی بینکاری کے بانی ممبر ہیں۔۔۔۔ان سے مشورہ کرکے جاندار جواب تیار کریں۔۔۔۔۔ڈاکٹر احمد علی سراج نے بتایا کہ کویت اسلامی بینک میں ہمیں کرنٹ اکائونٹ کی تعریف وضع کرتے دو ہفتے لگے۔۔۔۔یہ کوئی مذاق نہیں جو چاہے اٹھے اور فتویٰ”داغ’ دے۔۔۔۔فتویٰ کا اصول ہے کہ متعلقہ موضوع پر دسترس رکھنے والا آدمی ہی فتویٰ دے سکتا ہے۔۔۔۔”یہ حضرات” تو کرنٹ اکائونٹ کی "ابجد” نہیں جانتے وہ اسلامی بینکاری پر ‘لب کشائی”کیسے کر سکتے ہیں؟؟ میں نے انہی دو نکات پر خبر ڈرافٹ کی اور سرکاری نیوز ایجنسی سے جاری کرادی۔۔۔اگلے دن اسی اخبار نے اسے اسی جگہ پر شائع کیا۔۔۔”اس گروہ” کا بیانیہ "تحلیل” ہو گیا اور مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی صاحب "شادمان” ہو گئے۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ مفتی رفیع صاحب پکار اٹھے کہ مولوی سعید آپ نے ہمیں بچا لیا۔۔۔۔۔اسی زمانے کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی دور حکومت میں "اندھیروں”کی گھٹا ٹوپ کے بعد حج سکینڈل نے بھی سر اٹھا لیا۔۔۔۔۔تب کے” وزیر مذہبی امور” نے کسی ٹی وی شو میں نا جانے کس کے کہنے پر مدرس حرم کعبہ مولانا محمد مکی حجازی پر بھی”انگلی” اٹھ دی۔۔۔۔۔مجھے ڈاکٹر سعید صاحب کا فون آیا کہ مکی صاحب وزیر کی "جھوٹی کہانی” پر” دل گرفتہ” ہیں۔۔۔۔۔میں نے انہیں آپ سے مشورے کا کہا ہے۔۔۔۔کچھ دیر بعد مکی صاحب کا فون آگیا۔۔۔۔۔۔واقعی وہ وزیر کے”افسانے” ” پر دکھی تھے۔۔۔۔۔۔۔میں نے انہیں بتایا کہ میں نے پروگرام دیکھا اور خبر بھی پڑھی ہے۔۔۔۔۔آپ کو کسی "وضاحت” کی ہرگز ضرورت نہیں۔۔۔۔۔میں نے کہ بے چارے وزیر کو تو آپ کے اصل نام کا بھی علم نہیں۔۔۔۔۔اس نے "سنی سنائی بنیاد”پر صرف کسی” مولانا مکی” کے بارے میں "ایک الزام نما جملہ” بولا ہے۔۔۔۔۔یہاں پاکستان میں ہی نا جانے کتنے "مولانا مکی” ہیں۔۔۔۔۔کسی کو کیا پتہ وہ کس”مولانا مکی "کا تذکرہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔بہتر ہے بلاوجہ موقف کے بجائے اسے
” نظر انداز "کر دیا جائے۔۔۔۔۔وہ مسکرائے اور کہا آپ کا مشورہ سو فیصد درست ہے۔۔۔۔وزیر جانے اور اس کاضمیر جانے۔۔۔۔۔۔پھر ان وزیر صاحب کو جیل ہو گئی اور وہ "قصہ پارینہ” بن گئے۔۔۔۔ڈاکٹر سعید عنایت اللہ سے پہلی ملاقات بھی بڑی دل چسپ تھی۔۔۔۔کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے وہ شریف برادران کے کزن میاں طارق شفیع مرحوم کے گھر ملے۔۔۔۔۔۔وہ مکہ واپسی کے لئے بہت جلدی میں تھے۔۔۔۔عربی کرتے میں پنجابی انداز کے دبنگ عالم دین کو دیکھ حیرت ہوئی۔۔۔۔۔مختصر تعارف کے بعد سوال و جواب شروع ہو گئے۔۔۔۔۔تب دہشتگردی کا زمانہ تھا اور میں ایک قومی اخبار کے لئے علمائے کرام کی اسلامی رائے پر مبنی آرٹیکل لکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔میں نے سوال کیا کہ کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟انہوں نے جواب دینے سے پہلے کہا کہ عربی اصطلاح میں ایسے سوال،جس میں اپنے "مطلب "کا جواب نکالا جائے، کو "سوال خبیث” کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔پھر بولے درست سوال یہ ہے کہ اسلام کیسے پھیلا اور جواب یہ ہے کہ بے شک اسلام دعوت سے پھیلا مگر جب ضرورت پڑی تو تلوار بھی چلی یعنی جہاد اپنی جگہ اہم ہے۔۔۔۔۔”اسلام تلوار نہیں مکالمے سے پھیلا "کے عنوان سے مضمون چھپا تو مجھے گجرات سے "مسیلمہ سکول آف تھاٹ” کے ایک خوشہ چیں کا” طنزیہ خط” موصول ہوا کہ جناب جو بات اب تمہارے مولوی کر رہے ہیں۔۔۔۔یہی تو ہمارے "مسیح موعود” کہتے تھے۔۔۔۔میں اس تاویل پر چونک گیا۔۔۔۔مجھے ایک عالم دین کی تھیوری کے صرف ایک ہفتے بعد” سوال خبیث "کا "پریکٹیکل جواب” مل گیا۔۔۔۔۔ڈاکثر سعید عنایت اللہ کی مکہ واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد انٹر نیشنل کے بانی امیر اور روحانی بزرگ مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب پاکستان تشریف لائے۔۔۔۔۔ایک دن ان کے خلیفہ برادرم مفتی شاہد کا فون آیا کہ مکی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔میں نے مکی صاحب سے درخواست کی کہ حضرت آپ زحمت نہ کریں میں خود حاضر ہوجاتا ہوں مگر وہ نہ مانے اور ضعف کے باوجود سیڑھیاں چڑھ کر ہمارے اخبارکے دفتر تشریف لائے۔۔۔۔مجھے مکی صاحب کا وہ "مسکراتا جملہ” نہیں بھولتا کہ کہ مجھے ڈاکٹر سعید صاحب کا "حکم” ہے کہ آپ کو مل کر آئوں۔۔۔میں نے واپس جا کر انہیں "رپورٹ”بھی دینی ہے۔۔۔۔۔۔اس جملے میں ان کے دل میں ڈاکٹر صاحب کے لیے بے پناہ احترام کی جھلک ملتی ہے کہ وہ بھی با ادب بامراد کا عملی نمونہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب آج بھی مکی صاحب کے ذکر پر "سرنگوں’ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔صحابہ کی بستی جنت البقیع میں اپنے مرشد مولانا زکریا کاندھلوی کے پہلو میں آسودہ خاک مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب واقعی دل پذیر امیر تھے۔۔۔۔۔۔شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری نے کیا خوب کہا تھا کہ اللہ والوں کے جوتوں میں وہ موتی ملتے ہیں جو بادشاہوں کے تاجوں میں نہیں ہوتے۔۔۔۔۔لگتا ہے ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ مکی صاحب کے قدموں میں بیٹھ کر وہ "گوہر نایاب” پاچکے جس کے سامنے "دنیا”ہیچ دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔اس لیے وہ "اقتدار” اور "دربار” سے دور بھاگتے ہیں۔۔۔اللہ والوں سے فیض یاب کوئی خوش قمست بھلا "درباری” کیوں ٹھہرے گا ؟؟