کراچی(ادبی رپورٹر )چاک ادبی فورم کے زیر اہتمام سٹی اسپورٹس کمپلیکس، کشمیر روڈ میں منعقد ہونے والی دو روزہ اردو افسانہ کانفرنس کے دوسرے دن افسانچہ کے موضوع پر گفتگو کی گئی، اس سیشن کی صدارت معراج جامی نے کی جبکہ مختلف افسانہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، شرکاء نے کہا کہ افسانچہ خود میں ایک مکمل صنف ہے، مختصر الفاظ میں بہت کچھ کہہ جانا ہی افسانچہ ہے، افسانچے میں وہ تمام لوازمات موجود ہوتے ہیں جو ایک افسانے کی ضرورت ہیں، افسانچہ قاری کو چونکا دینے اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کا کام کرتا ہے، جس میں مسائل کو منفرد انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ لکھاری معاشرے کا حصہ ہے اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر اپنی سمت کے مطابق قلم اٹھانا ایک فطری عمل ہے، غزہ کی صورتحال پر حالیہ دنوں میں بہت دلکش اور خوبصورت افسانچے منظر عام پر آئے، معاشرے میں تبدیلی آنے کے ساتھ موضوعات بھی بدلتے جاتے ہیں، افسانچے میں بھر پور ابلاغ ہے، اس کا موضوع افسانچے کا پلاٹ اور اختتام پر پنچ لائن لازمی ہے، 1948 میں سعادت حسن منٹو نے ”سیاہ حاشئے“ لکھ کر افسانچے کی بنیاد ڈالی، بعد میں لکھے گئے افسانچے منٹو کی اسی روایات کا تسلسل ہیں، دو روزہ افسانہ کانفرنس میں قبل ازیں پہلے دن افتتاحی تقریب کے بعد یاد رفتگاں کے عنوان سے دوسرا سیشن منعقد ہوا جس میں ان افسانہ نگاروں کو یاد کیا گیا جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں، اس موقع پر مقرر زیب اذکار نے کہا کہ ہمارے عہدکے نامور افسانہ نگاروں کی رخصتی سے پیدا ہونے والا خلاء پر ہونا مشکل ہے، نوجوان اور ابھرتے ہوئے افسانہ نگار اپنی تکنیک اور مشاہدات میں گہرائی لا کر افسانے کی روایت کو فروغ دیں اور ہم سے بچھڑنے والے افسانہ نگاروں کے اپنائے ہوئے راستے کی تقلید جاری رکھیں، کانفرنس کے تیسرے سیشن میں پاکستان کی دیگر زبانوں میں ”افسانہ و تراجم“ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی گئی، اس سیشن کی صدارت ضیاء ابڑو نے کی، شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں بولی جانے والی مختلف زبانوں میں لکھے گئے افسانے اور تراجم ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں اور ہمیں تمام زبانوں میں پیش کئے جانے والے احساسات کا احترام کرنا چاہئے، زبانیں لوگوں کے آپس میں ملنے اور ہجرتوں سے وجود میں آتی ہیں، المیہ یہ ہے کہ انسان کو تقسیم کیا گیا ہے اور عام آدمی اس کا شکار ہورہا ہے جبکہ انسان کی فطرت میں معاشرت ہے، شرکاء نے کہا کہ دیگر زبانوں سے ترجمہ تہذیبی روایت سمیت کئے جانے چاہئیں تاکہ پڑھنے والے ان سے قربت محسوس کریں، تقسیم ہند کے حوالے سے اردو میں ہی نہیں سندھی میں بھی انتہائی ذرخیز اور ترقی پسند ادب موجودہے، کانفرنس کے پہلے دن آخری سیشن میں ”کلاسک افسانہ“ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے رحمن نشاط نے کہا کہ افسانہ نگار کے لیے اولین چیز مشاہدہ ہے، موجودہ دور میں فیس بُک کا قاری بہت بے صبرا ہوگیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ قاری کو افسانے کی پہلی تین چار سطروں میں ہی متوجہ کرلیا جائے، شرکاء نے کہا کہ افسانہ نگار عالمانہ انداز اپنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی بات قابل قبول انداز میں پڑھنے والے تک پہنچائیں، کلاسک افسانہ نگاروں نے انسان کے دکھ کو محسوس کیا اور اسے اپنی مخصوص ادبی چاشنی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا، افسانے کے کردار کی نفسیات افسانے کی بنت ہوتی ہے، ادیب کسی بھی واقعہ، قصہ اور حادثے سے متاثر ہو کر اپنی ذہنی صلاحیت کے بل بوتے پر کلاسک افسانہ لکھ دیتے ہیں بنیادی طور پر افسانہ معاشرے کے کسی فرد زندگی کی نا ہمواری کو بیان کرتا ہے، ادب میں افسانے کا وہی کردار ہے جو ہیروں میں کوہ نور کا ہے، افسانہ ادب کا چمکتا ہوا کوہ نور ہے.