کراچی(نمائندہ خصوصی) سینئر صحافی محمود شام نے کہا ہے کہ افسانہ نویسوں نے ہمیشہ اپنے وقت کی بہتری ترجمانی کی ہے، ہم سب کے گرد روزانہ بے شمار کہانیاں گھومتی ہیں، یہ افسانہ نگاروں کا ہی فن ہے کہ کہانیوں کو حقیقت بنادیتے ہیں، ہم سب افسانے ہیں، چاک گھوم رہاہے، کوزہ گر کی مرضی ہے کہ ہمیں کیا شکل دے، چاک ادبی فورم موجودہ دور میں الجھی زلفیں سلجھانے کی ایک کوشش ہے، کراچی خود ایک الجھی زلف ہے دیکھیں یہ ظالم لٹ کب سلجھتی ہے، کراچی میں چہرہ چہرہ لاکھوں کہانیاں، فٹ پاتھوں پر، چنچی رکشوں میں، ویگنوں میں اور سڑکوں پر افسانہ نگاروں کی راہ تک رہی ہیں مگر یہ فقط ایدھی اور چھیپا کے ہی حصہ میں آتی ہیں، سمندر کی موجیں ساحل کی ریت پر بہت سی کہانیاں چھوڑ جاتی ہیں، کراچی صرف غریب پرور ہی نہیں بلکہ ادب پرور شہر بھی ہے، ہم خوش قسمت ہیں کہ کراچی میں سب کچھ میسر ہے، کراچی کے گلی کوچے اپنی دستانیں لئے افسانہ نگاروں کی طرف دیکھ رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز سٹی اسپورٹس کمپلیکس کشمیر روڈ میں دو روزہ دوسری چاک اردو افسانہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے بحیثیت صدر مجلس خطاب کرتے ہوئے کیا، قبل ازیں چاک ادبی فورم کی چیئرپرسن محترمہ صائمہ صمیم نے خطبہ استقبالیہ میں کانفرنس کا مختصر تعارف پیش کیا، انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پہلی چاک اردو افسانہ کانفرنس کی بھرپور کامیابی نے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا، منزل پر پہنچنے کے لئے قدم بہ قدم چلنا ہوتا ہے، چاک ادبی فورم نے کراچی کے افسانہ نگاروں کو گمنامی سے نکال کر منظر عام پر لانے کے لئے یہ پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے تاکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو، انہوں نے کہا کہ افسانہ لکھنے والا اور سوچنے والا ایک عام آدمی سے مختلف ہوتا ہے لہٰذا ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ضروری ہے، چاک اردو افسانہ کانفرنس میں اہل ادب اور شہریوں کی بھرپور شرکت اس طرف اشارہ ہے کہ افسانے میں دلچسپی رکھنے والوں کی کمی نہیں، افتتاحی سیشن میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر تہمینہ عباس نے پاکستان میں اردو افسانے کے 76 سال کے موضوع پر اظہار خیال کیا، انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند دنیا کے دس المناک حادثات میں سے ایک ہے، قیام پاکستان کی تحریک اور واقعات نے افسانے کے لئے بھرپور مواد فراہم کیا، کرشن چندر، منٹو، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی، جمیلہ ہاشمی، قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی اور ممتاز مفتی نے انتہائی دلکش انداز میں ان کہانیوں کو رقم کیا، افتتاحی تقریب سے محترمہ نوشابہ صدیقی، اخلاق احمد، محمود احمد خان اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔