اب دیکھتے ہیں کہ افغانوں کی پاکستان بدری سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ پاکستان سے افغانوں کا اس وقت انخلا کیا جارہا ہے جس وقت افغانستان میں موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے ۔ انخلا کیے جانے والے افراد کی اکثریت کے پاس افغانستان میں کوئی فوری ٹھکانا موجود نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برفباری اور شدید ٹھنڈ میں یہ کھلے میدانوں میں خیمہ لگائے بیٹھے ہوں گے جس سے انسانی المیہ جنم لے گا ۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سارے ہی افغان مہاجرین جرائم پیشہ نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان بدر کیے جانے والے افراد کی اسکریننگ کی گئی ہے کہ تمام جرائم پیشہ افراد کو پکڑ پکڑ کر بے دخل کیا جا رہا ہے ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ بس جو ہاتھ لگا ، اسے پکڑا دھکڑا ۔ جس نے پیسے دے دیے ، انہیں چھوڑ دیا اور جو اس کی سکت نہیں رکھتا ، اسے بے دخل کرنے کے لیے کیمپوں میں پہنچادیا ۔
میں پہلی قسط میں ہی لکھ چکا ہوں کہ افغانستان کی ساٹھ فیصد سے زاید آبادی وہ ہے جس نے امریکی دور میں یا تو آنکھ کھولی یا ہوش سنبھالا ۔ انہیں بھارت و امریکا نے خوب پاکستان دشمنی کے انجیکشن لگائے ۔ یہ پہلے سے ہی زہریلے پروپیگنڈے کا شکار ہیں ۔ ایسے میں جب پاکستان سے افغان مہاجرین اس طرح افغانستان پہنچیں گے ، وہ زہریلے پروپیگنڈے کا شکار افغان نوجوانوں کے جذبات کو برانگیجتہ کریں گے ۔ اس کی بہترین مثال افغان کرکٹ ٹیم ہے ۔ افغان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی تنخواہوں سمیت سارے ہی اخراجات بھارتی حکومت برداشت کرتی ہے تو افغان کرکٹ ٹیم کے پاکستان مخالف جذبات بھی سب کے سامنے ہیں ۔
اگر افغان مہاجرین کو پاکستان بدر کرنا ہی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ حکمت عملی بنانی چاہیے تھی ۔ آپ کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین جرم میں ملوث ہیں تو پھر سب سے پہلے ان افغانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہیے تھا جو جرائم میں ملوث ہیں ، چاہے ان کے پاس قانونی دستاویزات ہیں یا نہیں ہیں ۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں ان لوگوں کو پورے ملک سے سمیٹ کر سرحدی صوبوں تو لانا چاہیے تھا ۔ یعنی کراچی سے مہم شروع کرتے اور بتدریج ایک ایک علاقہ خالی کرواتے ہوئے انہیں پہلے سرحدی علاقوں تک لاتے ۔ 37 لاکھ افراد کو آپ دو ماہ تو کیا دو سال میں بھی نہیں نکال سکتے ۔ تو بہتر تھا ، اس کے لیے افغان حکومت کی مشاورت سے کوئی پالیسی طے کی جاتی ۔
اس وقت پاکستان ایک عجیب طرح کی صورتحال سے دو چار کردیا گیا ہے ۔ مسلسل کی جانے والی حماقتوں ( جی ہاں جان بوجھ کر کی جانے والی حماقتوں ) کی بناء پر پورے پاکستان میں عجیب طرح کی بےچینی پھیلی ہوئی ہے ۔ پارا چنار کا علاقہ مسلسل میدان جنگ بنا ہوا ہے ۔ گوادر والی ساحلی پٹی محافظین کے لیے محفوظ نہیں رہی ہے ۔ خاص طور سے پنجگور کا علاقہ ۔ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی حملے جاری ہیں ۔ خیبرپختون خوا میں بھی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ۔ حال میں ہی میانوالی میں تربیتی ایئر بیس پر حملہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر بجلی کے بلوں کی آڑ میں آزاد کشمیر میں جو کھیل کھیلا گیا ، وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ اس علاقے میں پہلی مرتبہ پاکستان مخالف نعرے لگے ، پاک فوج کے قافلے کو روک لیا گیا
یہ وہی علاقے ہیں جہاں سے 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران جب فوجی قافلے گزرتے تھے ، تو دیہاتی ان کے لیے لسی اور شربت لیے کھڑے ہوتے تھے ۔ سپاہی سے ہاتھ ملانے کو بھی اعزاز سمجھا جاتا تھا ۔ اب یہ 180 درجے پر یوٹرن کی وجہ کچھ تو ہے ۔ جس طرح سے مالا کنڈ میں لیویز نے افغان مہاجرین کے خلاف ایکشن لینے سے صاف انکار کردیا ہے ، اس نے سقوط بنگال سے قبل بنگال رجمنٹ کی بغاوت کی یاد تازہ کردی ہے ۔
ان سب ادھورے اور نیم دلانہ اقدامات کے نتیجے میں افغان مہاجرین کی اکثریت پاکستان سے نہیں جائے گی بلکہ وہ یہیں رہے گی ، جرائم پیشہ افراد بھی پولیس اور دیگر اداروں کی معاونت سے اپنا کام کرتے رہیں گے ، اسمگلنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی بس سرحد پار پاکستان مخالف جذبات مزید بھڑکیں گے ۔ ہماری مشرقی سرحد پر پہلے ہی بھارت دراندازیوں سے باز نہیں آرہا ۔ چند دن قبل ہی سیالکوٹ پر ورکنگ باونڈری پر ہونے والی شدید گولہ باری کی بناء پر وہاں کی آبادی کو راتوں رات محفوظ علاقے میں منتقل کرنا پڑا ۔ ایسی حالت میں مغربی سرحد کو غیر محفوظ بنانے کے نتیجے میں پاک فوج کی آدھی نفری پاک بھارت سرحد سے ہٹا کر پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر منتقل کرنا پڑے گی ۔ نفری میں کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید بھرتیاں بھی کرنا پڑیں گی جس کا مطلب ہے بجٹ میں بھاری بھرکم اضافہ ۔
اب تک کیے جانے والے cleaning operations میں کھربوں روپے لگ چکے ہیں جبکہ نتائج مایوس کن ہیں ۔ ایسے میں مغربی سرحد کو غیر محفوظ بنانے کا مطلب یا تو مشرقی سرحد سے نفری ہٹا کر رسک لینا ہے یا پھر مزید فوج بھرتی کی جائے ۔ مزید دفاعی بجٹ بڑھانے کا واحد مطلب ملک پر مزید مالی بوجھ ڈالنا ہے ۔ یہ pull n push والی پالیسی ہے ۔ یعنی ایک طرف ملک کی معاشی سرگرمیوں کو کم کیا جائے تو دوسری طرف مالی بوجھ میں اضافہ کیا جائے ۔ ریاضی کی زبان میں اس کے نتائج دگنا مہلک ہوتے ہیں ۔ اسے ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ دو رسیوں پر اگر پانچ پانچ چڑیاں بیٹھی ہوں ۔ ان میں سے ایک چڑیا اڑ کر دوسری رسی پر بیٹھ جائے تو فرق ایک چڑیا کا نہیں ہوگا بلکہ دو چڑیوں کا ہوگا ۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی بہتر حکمت عملی اپنائی جاتی اور اس طرح سے پاکستان کے پڑوسی ممالک میں نفرتوں کو فروغ نہ دیا جاتا ۔ بھارت سے دوستی ناممکن ہے کہ وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی چانکیہ پالیسی پر پہلے دن سے عمل پیرا ہے تو افغانستان اور ایران کے ساتھ تو یورپی ممالک کی طرز پر پرامن تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں جو بے چینی پیدا کردی گئی ہے ، وہ انتہائی تشویش ناک ہے اور اس پر سنجیدہ ایکشن لینے کی ضرورت ہے ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔