بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775 کو پیدا ہوے ۔1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82 سال کے تھے جب ان کے سبھی بچوں کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز تھال میں سجا کر ان کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔ میجر ہڈسن نے ان کے چاروں لڑکوں مرزا غلام ، مرزا خضر سلطان ، مرزا ابوبکر اور مرزا عبداللہ کوبھی قید کرلیا ، میجر ہڈسن نے سبھی چاروں صاحبزادوں کا سر کاٹا اور ان کا گرم خون چلو سے پی کر ہندوستان کو آزاد کرنے کی چاہ رکھنے والوں سے انگریزوں کے تئیں جنگ اوربغاوت کوجاری رکھنے کا خطرناک وحشیانہ عہد کو جاری رکھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔
بہادرشاہ ظفر مغل خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔30 ستمبر 1837 کو تخت پوشی کے وقت انہیں ابوظفر کے بدلے ابوظفر ،محمد سراج الدین ، بہار شاہ غازی نام ملا تھا۔ ان کی حکومت ڈھنگ عالم سے پالم تک ہی مانا جاتا تھا۔ وہ نام ماگ کے دہلی کے چیرمین تھے اور اصل حکومت انگریزوں کے پاس تھی۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی، زبان کے ساتھ گھڑسواری ،تلوار بازی، تیراندازی اور بندوق چلانے کی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک اچھے صوفی درشن کے جانکار فارسی میان، سولےخن میں ادیب وشاعر تھے۔ وہ 1857ء تک حکومت کے کام کاج سنبھالتے رہے۔ انگریزوں نے ان پر حکومتی مجرم، اور فوجیوں قتل کے الزام میں عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا، مقدمے میں پیش کئے گئے۔ ثبو ت بہت زیادہ ظلم آمیز تھے اور قانون عام ہونے کے باوجود انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو مجرم اور خاطی قرار دیا اور ملک سے نکالنے کا جرمانہ دیا۔ 82 سال ہندوستان کےآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر پر حیرت انگیز مقدمہ سونپا۔ اکتوبر 1858ء میں انہیں زندگی بھر کے لئے رنگون بھیج دیا گیا۔
یہ کہانی بہادر شاہ ظفر کے انہی آخری جلاوطنی کے دنوں کی ہے۔
عبرت کے جہاں میں ہیں ہر سو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے۔
یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا‘ شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں‘ کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا‘ وہ بندر گاہ پہنچا‘ اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا‘ رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا‘ نیلسن پریشان تھا‘ بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا‘ وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا‘ نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا‘ نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند‘ ظل سبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا‘
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا‘
بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں‘
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے‘
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘
اسی گیراج میں لکھی تھی‘
یہ آج7 نومبر کا خنک دن تھا اور سن تھا 1862ء۔
بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی‘ اندر سے اردلی نے برمی زبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی‘ خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی برمی میں جواب دیا‘ ظل سبحانی کا سانس اکھڑ رہا ہے‘ اردلی نے جواب دیا‘ صاحب کتے کو کنگھی کر رہے ہیں‘ میں انھیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا‘ خادمہ نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا‘ اردلی اسے چپ کرانے لگا مگر آواز نیلسن تک پہنچ گئی‘ وہ غصے میں باہر نکلا‘ خادمہ نے نیلسن کو دیکھا تو وہ اس کے پاؤں میں گر گئی‘ وہ مرتے ہوئے بادشاہ کے لیے گیراج کی کھڑکی کھلوانا چاہتی تھی‘ بادشاہ موت سے پہلے آزاد اور کھلی ہوا کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتا تھا‘ نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا‘ گارڈز کو ساتھ لیا‘ گیراج میں داخل ہو گیا۔
بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بو‘ موت کا سکوت اور اندھیرا تھا‘ اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا‘ نیلسن آگے بڑھا‘ بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر‘ اس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی‘ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر ابل رہے تھے‘ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں‘ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی‘ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی‘ وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا‘ وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس جی ہاں صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی اور یہ اپیل پرانے کنوئیں کی دیوار سے لپٹی کائی کی طرح ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی‘ کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا‘ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی‘ ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا‘ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا‘ لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی‘ وہ دونوں آئے۔
انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا‘ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نماز جنازہ پڑھی‘ قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی‘ نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا‘ قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ‘ گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا‘ ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر‘ تاج شاہی سر پر رکھ کر اور نادر شاہی اور جہانگیری تلواریں لٹکا کر دربار عام میں آیا تو پورا دلی تحسین تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا‘ نقارچی نقارے بجانے لگے‘ گویے ہواؤں میں تانیں اڑانے لگے‘ فوجی سالار تلواریں بجانے لگے اور رقاصائیں رقص کرنے لگیں‘ استاد حافظ محمد ابرہیم دہلوی کو یاد تھا بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن سات دن جاری رہا اور ان سات دنوں میں دلی کے لوگوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا مگر 7 نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا۔
استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے جوتے اتارے‘ بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورۃ توبہ کی تلاوت شروع کر دی‘ حافظ ابراہیم دہلوی کے گلے سے سوز کے دریا بہنے لگے‘ یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریب الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا‘
آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شپ کی کچی گلیوں کی بدبودار جھگیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے‘ یہ آخری مغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے‘ یہ کچی زمین پر سوتی ہے‘ ننگے پاؤں پھرتی ہے‘ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے مگر یہ لوگ اس کسمپرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں‘ یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
جب بادشاہ جلاوطن ہوا تو بادشاہ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج میں قید رہا‘ گھر کے احاطہ میں دفن ہوا اور اس کی اولاد آج تک اپنی عظمت رفتہ کا ٹوکرا سر پر اٹھا کر رنگون کی گلیوں میں پھر رہی ہے‘ یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے‘ جو بادشاہ اپنی سلطنت‘ اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے‘ جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں‘ ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں‘
یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی‘ یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں۔!!