”انسانی حقوق“ اوردہشت گردی کا عالمی چمپئن امریکا ،برطانیہ سمیت مغربی ممالک اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہوگئےاسرائیلی دہشت گردی پر مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی لمحہ فکریہ ہے
دہشت گردی کے عالمی چمپئن امریکا اور انسانی حقوق کے چمپئن مغربی ممالک کی آشیر باد سے دنیا بھر میں دجال کی شیطانی نظام کو نافذ کرنے والے وحشی درندے اسرائیل نے انبیائے کرام کی سرزمین، فلسطین کولہو لہو کرکے غزہ کے مختصر قطعہ زمین کو محصور و مجبور نہتے فلسطینی باشندوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ بچوں بوڑھوں، بیماروں، ز،خمیوں اور معذوروں کا لحاظ کئے بغیر اسرائیلی طیارے اندھا دھند بمباری کر رہے ہیں،اسرائیلی توپ خانہ کسی خصوصی ہدف کے بغیر غزہ پر گولہ باری میں مصروف ہے، غزہ کی سرحد کے ساتھ نصب کی گئی 150 ایم ایم کی ان توپوں سے برسنے والے گولوں سے بہرہ کر دینے والا شور پوری فضا پر محیط ہے ،اسرائیل نے زمینی پیش قدمی بھی کی ہے اسرائیلی ٹینک غزہ کے علاقوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ بمباری اور گولہ باری کے دوران تمام جنگی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے مسجدوں، اسکولوں،اسپتالوں،ایمبولینس اور سو فیصد شہری رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے اپنی جارحانہ کارروائیوں کا دائرہ لبنان اورشام تک بڑھا دیا ہے، شام کے دمشق اور حلب کے دو اہم ہوائی اڈے اسرائیلی میزائل حملوں سے تباہ ہو گئے ہیں اور انہیں ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ اور لبنان میں سفید فاسفورس بم استعمال کرنے کی تصدیق کی ہے جو انسانی جانوں کے لیے نہایت مہلک ہوتا ہے۔ غزہ میں سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے اسرائیل نے جو دس ہزار بم اور آٹھ ہزار ٹن بارود گرایا ہے اور جس کا اعتراف نہایت ڈھٹائی سے اسرائیلی فوجی ترجمان نے خود کیا ہے، اس کے نتیجے میں اب تکپچاس ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہری شہادت کی منزل پا چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جام شہادت نوش کرنے والوں میں معصوم اور شیر خوار بچوں کی تعدادبھی آٹھ ہزارکے قریب بتائی گئی ہے، ہزاروں افراد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ14 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔دہشت گردی کے عالمی چمپئن امریکا کی سر پرستی میںبدمست اسرائیلی فوج کے قطعی غیر انسانی سفاکانہ طرز عمل کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہری آبادی پر حملوں سے قبل کوئی انتباہ تک نہیں کیا جاتا اور دھڑلے سے رہائشی مکانات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوجی محاصرے کی وجہ سے محصور علاقے میں اشیائے خور و نوش، پانی، ایندھن اور ادویات وغیرہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، بجلی کی عدم فراہمی سے پورا علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، انٹرنیٹ اور رابطے کے دوسرے ذرائع بھی مسدود ہو چکے ہیں۔ ظلم و سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ کے مکینوں کے لیے قبرستانوں تک پہنچنا ناممکن بنا دیا ہے لہٰذا سوگوار خاندان اپنے مرحومین کو خالی جگہوں میں کھودی گئی غیر رسمی قبروں میں دفن کر رہے ہیں۔اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے ،اسرائیل غزہ میں جو ظلم کر رہا ہے اس سے تیسری عالمی جنگ چھڑنے کا بھی خدشہ ہے۔
غزہ کی صورت حال پر ہونے والا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا تیسرا اجلاس بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا جس میں روس کی جنگ بندی کی قرارداد کی امریکا اور برطانیہ نے مخالفت کی جبکہ امریکی قرارداد کو روس اور چین نے ویٹو کردیا۔ العربیہ نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکا کی جانب سے غزہ کی صورت حال پر پیش کی گئی قرارداد پر رائے شماری ہوئی جس کے حق میں 10 ارکان نے ووٹ دیا۔ قرارداد کی منظوری کے لیے 9 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکی قراداد جس میں غزہ میں فضائی کارروائی کو اسرائیل کا حق دفاع تسلیم کیا گیا تھا اور ایران پر حماس کو اسلحے کی فراہمی کا الزام عاید کیا گیا تھا۔یہ قرارداد منظور ہوجاتی لیکن روس اور چین نے امریکی قرداد کو ویٹو کردیا جس کی وجہ سے 9 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود امریکی قرارداد منظور نہ ہوسکی۔ جس کے بعد غزہ کی صورت حال پر روس کی قرارداد پیش کی گئی۔ روس نے قرارداد میں امدادی سامان کی متاثرہ علاقوں تک رسائی کے لیے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔روسی قرارداد کی چین، متحدہ عرب امارات اور گیبون نے حق میں جبکہ امریکا اور برطانیہ نے نفی میں ووٹ اور دیگر 9 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور یوں غزہ پر ہونے والا اقوام متحدہ کا تیسرا اجلاس بھی بے نتیجہ ثابت ہوا۔14 لاکھ فلسطینی اسرائیلی دھمکیوں اور مسلسل بمباری کے باعث شمالی غزہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر جنوبی غزہ میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ رفح بارڈر سے بھی امدادی سامان کی ترسیل تعطل کا شکار ہے۔
ایک طرف اسرائیلی فوج مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے مگر دوسری جانب مہذب، اصول پسند اور حق و انصاف کی علمبردار ہونے کی دعویدار مغربی دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ ہر یکطرفہ ظلم و ستم ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی نہیں کر رہی بلکہ نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے کھلم کھلا اسرائیل کی سفاکیت کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے۔ مہذب دنیا کے سرخیل امریکا کے صدر جوبائیڈن نے واضح الفاظ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونے کے اعلان کیا اور اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود سے بھرے جہاز تل ابیب پہنچا ئے۔مغربی دنیا کا ظلم اور ظالم کی حمایت کا یہ طرز عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ دھڑلے سے ڈنکے کی چوٹ نہایت ڈھٹائی سے کسی شرم و حیا کے بغیر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ثنا خوان تقدیس مغرب اور انسانی حقو ق کے چمپئن کہاں ہیں، جو صبح شام مغربی دنیا کی اصول پسندی اور عدل و انصاف کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ کیا انہیں یہ صریحاً ظلم و نا انصافی اور مغرب کی جانب سے اس کی کھلم کھلا تائید و حمایت دکھائی نہیں دے رہی، انسانی حقوق کا شور مچانے والی تنظیمیں اس سفاکیت پر دم سادھے خاموش کیوں ہیں؟شک کی بنا پر پاکستان جیسے ملکوں پر پابندیاں عائد کرنے والے ایف اے ٹی ایف کے عہدیدار کہاں ہیں؟ ذرا ذرا سی بات پر پابندیاں عائد کرنے والا اقوام متحدہ اس وقت غیر فعال کیوں ہے؟ کیا اسے غزہ کے مظلوم اور مجبور عوام پر ہونے والا ظلم دکھائی نہیں دے رہا؟ نائن الیون کو جواز بنا کر امریکہ کو افغانستان پر چڑھ دوڑنے کی آزادی دینے اور کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی اجازت دینے والے اقوام متحدہ کو اسرائیل کی طرف سے نہتے فلسطینی عوام پر برسانے جانے والے انتہائی جان لیوا فاسفورس بم آخر کیوں نظر نہیں آرہے ؟کیا اس کی تمام پابندیاں صرف کمزور اور مسلمان ملکوں کے لیے ہیں اور با اثر و طاقت ور مغربی دنیا کو تمام اخلاقی پابندیوں اور بنیادی انسانی حقوق پامال کرنے کی کھلی آزادی ہے؟۔
عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے باعث اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر قابض ہے۔ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا مرتکب ہے، وہاں یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری کر رہا ہے اور اس قبضے اور بے دخلی کی مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کا اندھا دھند قتل عام کررہا ہے لیکن اسے کوئی روکنے والا نہیں۔غزہ میں پانی، خوراک، بجلی، علاج کچھ بھی نہیں ہے،جنگ بندی نہ ہونے سے انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم پر دنیا کا دہرا معیار سامنے آچکا ہے، وہی مغرب جو یو کرین روس کی جنگ میں تو روس کی مذمت کرتے نہیں تھکتا اور پوری دنیا پر زور ڈال رہا ہے کہ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی مالی و عسکری نہیں تو کم از کم اخلاقی مدد تو ضرورکی جائے لیکن جب فلسطین کی باری آتی ہے تو یہی مغرب جو مظلوم کا ساتھی ہونے کا دعویدار ہے اس کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیل دن رات بمباری کر رہا ہے، معصوم بچوں کو شہید کر رہا ہے۔غزہ اس وقت مکمل طور پر اسرائیلی بمباری سے زمین بوس ہو چکا ہے، اسپتال مردہ خانوں میں بدل گئے ہیں، خواتین اور بچوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، ایسے حالات کے باوجود امریکا اور یورپ کی نظر میں حماس ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہیں۔مغرب جو خود کو آزادی رائے کا چمپئن قرار دیتا ہے اس کے اکثر ممالک میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے اور اسرائیل کو ظالم کہنے پر پابندی لگا دی گئی ہے ،یہ مغربی دنیا کی شہ ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے حکمران مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اپنے خلاف لگائے جانے والے اسرائیلی الزامات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سفارتکاروں نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے ان کے خطاب کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جو انتہائی افسوسناک ہے اور انہیں اس سے شدید صدمہ پہنچاہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے فلسطینی عوام کے مصائب و مشکلات کا ذکر کیا تھا، انہوں نے کہا کہ اسرائیلی سفارتکاروں کا یہ الزام کہ انہوں نے حماس کے حملے کا جواز پیش کیا مکمل طور پر جھوٹ ہے۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ مشرق وسطیٰ سے باہر تک پھیل سکتی ہے کیونکہ یہ بات درست نہیں ہے کہ معصوم خواتین ، بچوں اور بوڑھے فلسطینیوں کو دوسرے لوگوں کے جرم کی سزا دی جائے۔ سعودی خبر رساں ادارے کے مطابق انہوں نے کریملن میں اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ خطے میں خونریزی کا سلسلہ روکا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے دنیا کے دوسرے رہنماﺅں کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کے دوران کہا کہ اگر جنگ بندی نہ کی گئی تو خطرہ ہے کہ یہ جنگ مشرق وسطیٰ کے باہر زیادہ دور تک پھیل جائے گی۔ ہماری ذمے داری ہے کہ اس خونریزی اور تشدد کو روکیں ورنہ بحران مزید بڑھ جائے گا جس کے مضمرات بڑے سنگین ہوں گے۔ علاوہ ازیں انقرہ میں خطاب کرتے ہوئے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو غزہ پٹی میں فوری جنگ بندی کے لیے اور کتنے بچوں کی لاشیں چاہئیں، جنگ بندی کے مطالبے کے لیے مغرب غزہ میں مزید اور کیا کرانا چاہتا ہے؟ مغرب اسرئیل کو روکنے کے بجائے اس کی غیر مشروط حمایت کر رہا ہے،اسرائیلی حملے سیلف ڈیفنس کی حدیں پار کر کے درندگی، وحشیانہ ردعمل میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سیلف ڈیفنس کی آڑھ میں غزہ پٹی میں قتل عام، سفاکیت کا بازار گرم کرنے میں مصروف ہے، انسانی حقوق کے علمبردار غزہ پٹی میں جاری بربریت اور قتل عام کو نظر انداز کر رہے ہیں،ترکیے معصوم بچوں، نہتے شہریوں کے قتل پر مزید وقت کے لیے خاموش رہ نہیں سکتا۔انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ غزہ میں جاری تشدد پر ترکیے خاموش رہے گا، ترکیے کی نظر میں غزہ، فلسطین،اسرائیل اور شام کے بچوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔رجب طیب اردوان نے کہا کہ سلامتی کونسل کو مداخلت کے لیے کتنی مزید بمباری درکار ہے، غزہ میں اسرئیل کے حملے اپنے دفاع سے باہر نکل چکے ہیں، مغرب غزہ میں عالمی قوانین کو اس لیے نظر انداز کر رہا ہے کہ وہاں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔اقوام متحدہ کے اجلاس میں جنگ بندی کے لیے 2 بار قرار دادیں پیش کی جاچکی ہیں لیکن انہیں امریکا نے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مسترد کروادیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی اپنی بے بسی کا اظہار کررہے ہیں، جبکہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے حکمران کھل کر ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کی قابض اور دہشت گرد حکومت کو تھپکی دے رہے ہیں اور اسرائیلی فوج کو قتل عام کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن،فرانسیسی صدر ایما نویل ماکروں اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک بھی اسرائیل جا کر اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں۔ یہ بھی دنیا نے تماشا دیکھا کہ امریکی صدر ایک ایسی فوج کی پشت پناہی کے لیے اسرائیل گیا تھا جس نے اسپتالوں پر بمباری کرکے زخمیوں کو علاج سے بھی محروم کردیا۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور تمام یورپی طاقتیں انسانیت کے خلاف جرائم کی ذمے دار ہیں۔ باقی علاقائی طاقتوں کی اپنی اپنی مصلحتیں ہیں جس کی وجہ سے دنیا ایک چھوٹے سے علاقے میں مقیم آبادی کی نسل کشی کا تماشا دیکھ رہی ہے۔
حماس کے حملے سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے، حماس نے جس طرح اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو شکست دی اور جس طرح اس کی ناک کے نیچے سے اسرائیل پر حملہ آور ہوا ہے، اس نے اسرائیل کو بوکھلایا تو ہے ہی اس کے ساتھ ان کے دفاع کی کمزوریاں بھی سامنے آگئی ہیں۔ اس تنازع میں سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک جانب جہاں مغربی میڈیا حماس کے حملے کی کوریج زیادہ کر رہا ہے وہیں دوسری جانب غزہ میں بمباری سے ہونے والی تباہی اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کی اموات جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے،کو انتہائی کم کوریج دی جا رہی ہے۔اب کہا جا رہا تھا کہ پانچ چھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے قریب ہیں کہ حماس نے جنگ چھیڑ دی ہے جب کہ حقیقت میں اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت مانتا ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔ فلسطینی دو علاقوں میں آباد ہیں، جو آپس میں کٹے ہوئے ہیں۔ ایک غربِ اردن اور دوسرا غزہ کی پٹی۔ مرحوم یاسر عرفات کی پارٹی پی ایل او کی حکومت غرب اردن پہ قائم ہے، جب کہ غزہ کی پٹی پر حماس حکمران ہے۔متنازع علاقوں میں اسرائیلی بستیاں بڑے فساد کا باعث ہیں۔ یوں تو مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناو ¿ ہمیشہ ہی رہتا ہے، مگر تشدد کی حالیہ لہر کا سبب مشرقی بیت المقدس سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور اسرائیل کا جبر و ستم ہے۔فلسطینی یہودیوں کی آبادکاری کو غیر قانونی اور امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جب کہ اسرائیل اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ ایک قدیم ترین اور پیچیدہ ترین مسئلہ ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ اردن نے غربِ اردن اور مصر نے غزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جب کہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔ 1956 میں پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں عربوں کو شکست ہوئی۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے علاوہ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔ اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں جہاں اب حماس کی محدود حکومت قائم ہے۔ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے، وہ اب جلاوطن پناہ گزینوں کو واپسی کی اجازت نہیں دے رہا بلکہ مزید فلسطینیوں کو ان کی زمین ہتھیانے اور یہودیوں کی آبادکاری کے لیے جبری طور پر بے دخل کر رہا ہے۔اس وقت موجودہ اسرائیل کا رقبہ تقریبا 21 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اسرائیل کی آبادی ترانوے لاکھ ہے، غربِ اردن کا رقبہ چھ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 20 لاکھ ہے۔جبکہ غزہ زمین کی ایک تنگ پٹی ہے جو اسرائیل اور بحیرہ روم کے درمیان واقع ہے لیکن جنوب میں اس کی زمینی سرحد مصر سے لگتی ہے۔صرف 41 کلومیٹر (25 میل) لمبے اور 10کلومیٹر چوڑے، اس علاقے میں 23 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں اور یہ زمین پر سب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے۔فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تین معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ غرب آردن اور غزہ کی پٹی کا کتنا حصہ فلسطین کو دیا جائے؟ بیت القدس یعنی یروشلم کیسے تقسیم کیا جائے؟ بے دخل فلسطینیوں کی آبادکاری کہاں اور کیسے کی جائے؟ بہترین، منصفانہ اور حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ غرب اردن اور غزہ کی پٹی مکمل فلسطین کے حوالے کیے جائیں۔بہتر تو یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دی جائے تاہم ان کے سابقہ گھر اسرائیل میں آگئے ہیں اور اسرائیل یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے ماضی میں عالمی طاقتیں فلسطینیوں پر اسرائیلی قبضے اور ظلم و ستم کو دوام اور حمایت مہیا کرتی رہی ہیں۔ سابق ٹرمپ انتظامیہ نے تو حد کردی۔اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، فلسطینی رقبے پر یہودیوں کی مزید بستیاں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکا سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کر کے اسرائیل کو کئی بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی، فلسطینیوں کے خلاف تشدد، ان کی زمینیں ہتھیانے، ان کے مکانات منہدم کرنے، انھیں بے دخل کرنے اور یہودیوں کی غیرقانونی آبادکاری پر مذمتی قراردادوں، پابندیوں اور سزا سے بھی بچاتا آیا ہے۔
زیادہ تر ممالک 1967 میں اسرائیل کے زیر قبضہ زمین پر تعمیر کی گئی یہودی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم، جس میں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات شامل ہیں، کو ان کی ریاست کا دارالحکومت بنایا جائے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یروشلم کو اس کا ناقابل تقسیم اور ابدی دارالحکومت رہنا چاہیے۔یروشلم کے مشرقی حصے پر اسرائیل کے دعوے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا البتہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور 2018 میں امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کر دیا گیا تھا۔ تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین اردن، لبنان، شام، اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں رہتے ہیں، فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے نصف بے وطن ہیں، بہت سے لوگ پر ہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔فلسطینیوں کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ پناہ گزینوں کو ان کی لاکھوں اولادوں کے ساتھ واپس جانے کی اجازت دی جائے، اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی کوئی بھی آباد کاری اس کی سرحدوں سے باہر ہونی چاہیے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے میں 4 لاکھ 90 ہزار یہودی آبادکار ناجائز طور پر بسائے گئے ہیں۔ اس طرح کے خوف اور دھمکیوں کی فضا مسلسل جاری رہتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ حملے مسیحیوں پر بھی جاری رہتے ہیں۔ فلسطینیوں کو تو اس وقت بھی دہشت گرد کہا جاتا تھا جب وہ غلیلوں اور پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال پر مسلم حکمرانوں کا کردار شرمناک ہے،اب تمام مسلم ممالک کے عوام کو اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیل اور مغرب کے پٹھو حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کا فرض ادا کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ، او آئی سی عرب لیگ وغیرہ سے کسی بھی قسم کے نتائج مطلوب ہوں تو ان اداروں میں مسلم عوام کے حقیقی نمائندہ حکمران پہنچانے ہوں گے۔ یہ بات سننے میں بڑی عجیب لگے گی کہ پاکستان یا کسی اسلامی ملک میں اسرائیل کی پٹھو حکومت قائم ہے۔ لیکن اس کے اقدامات بتارہے ہوتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے جو اسرائیلی مفادات کے خلاف ہو۔ خواہ وہ اسرائیل سے پوچھتے ہوں یا اس کے سرپرستوں سے یا کوئی انہیں ہدایات دیتا ہو۔ نتیجہ بہرصورت یہی نکلتا ہے کہ اسرائیل کے مفاد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ لہٰذا اصل رکاوٹ دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک امت مسلمہ کے ممالک پر غلام حکمراں مسلط رہیں گے اس وقت تک اسرائیل سمیت کسی بھی جارح طالم کے ہاتھ نہیں روکے جاسکیں گے۔ عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے، تمام مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کروائے اور ریاست فلسطین کو تسلیم کروائے۔ دو ریاستی حل، انصاف اور پر امن بقائے باہمی ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔