اسلام آباد(کورٹ رپورٹر ) عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صدرمملکت کی مشاورت سے عام انتخابات 8 فروری کو کرانے کے نوٹیفکیشن پیش کئے جانے کے بعد 90روز میں عام انتخابات کر انے کی درخواستیں نمٹادی۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہاہے کہ قومی اسمبلی اسوقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد آئی، وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا ، اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا، عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ آئینی اختیار استعمال کیا جو انکا نہیں تھا، اسکے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں، انتخابات کی تاریخ نہ دینے سے پورا ملک بے چینی کا شکار ہوا، حکومت 8فروری کو انتخابات کا انعقاد یقینی اور الیکشن کمیشن شیڈول کا اعلان کرے، آج سے15سال قبل آئین کی خلاف ورزی ہوئی، آئین پر شب خوں مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہو گا کہ عوام اور جغرافیائی حدود پر اسکے منفی اثرات پڑتے ہیں، صدر مملکت کا تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلی تحلیل کرنا غیر آئینی تھا، آئین سے انحراف کا آپشن کسی کے پاس نہیں،ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں،صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے، چیف جسٹس نے کہا اگر میڈیا نے انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کیے تو وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونگے،کسی چینل نے پٹی چلائی کہ انتخابات ہونگے یا نہیں ہونگے تو ایکشن ہوگا، کسی میڈیا والے کو انتخابات پرشبہات ہیں تو عوام میں نہیں بولے گا ہاں مگر اپنی بیوی کو بتا سکتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکمنامہ میں قررا دیاہے کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے پورے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ دی ہے، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا،حکمنامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے، عدالتی حکم نامہ کے مطابق اٹارنی جنرل نے صدر مملکت کے سیکرٹری کا خط عدالت میں پیش کیا ہے ،جس میں لکھا گیا کہ عام انتخابات 8 فروری کو منعقد ہونگے،عدالتی حکمنامہ کے مبطابق الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن شیڈول جاری کریگا۔ عدالت نے قراردیاہے کہ انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضامندی سے حل ہو چکا ہے، عوام کو منتخب نمائندوں سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے ، امید کرتے ہیں کہ ہرریاستی ادارہ پختگی اور سمجھ کے ساتھ چلے گا،چیف جسٹس نے کہا ہے کہ میں زندہ رہا تو انشا اللہ 8فروری بروز جمعرات ہر صورت قومی اورتمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہونگے، اگر الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کرواسکتا تو پھر گھر جائے،اگر انتخابات نہیں ہونگے تو عدالت دیکھ لے گی۔ انہوںنے کہاہے کہ پاکستان کے عوام اس بات کے مستحق ہیں کہ ملک میں عام انتخابات منعقد ہوں، جتنا بڑا آئینی ادارہ ہوگا اتنی ہی بڑی ذمہ داری اس پر ہوگی، عدالت نے انتخابات کی تاریخ دلوانے میں اپنا معمولی کردار اداکیا ہے، آئین کی تشکیل کو 50سال ہو گئے ہیں اورکسی آئینی عہدے اورآئینی ادارے کا کہنا نہیں بنتا کہ وہ آئین سے آگاہ نہیں ہے۔ انہوںنے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کی تاریخ سے سیکھنا چاہیے، آئین کی خلاف ورزی کے لوگوں اور پاکستان کی سرزمین پر بھی اثرات ہوتے ہیں۔ عدالتیں غیر ضروری معاملات میں ملوث نہیں ہوتیں ، لیکن یہاں پر عدالت کا قیمتی وقت معاملات کو حل کرنے اورایڈوائس کرنے میں لگ جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی میڈیا ہاؤس نے الیکشن سے متعلق ابہام پیدا کیا تو الیکشن کمیشن پیمراکو شکایت کریگا، میڈیا والے مائیک پکڑکریہ نہیں کہہ سکتے کہ انتخابات کے انعقاد میں شبہ ہے، اگر کسی کے دماغ میں شک ہے توہوتا رہے؟ لیکن عوام پر اثرانداز نہ ہوں، میڈیا والے بتائیں کہ جھوٹ بولنا ان کا حق تو نہیں ہے، میڈیا کی آزادی آئین میں دی گئی ہے، ہم میڈیا کیخلاف کارروائی نہیں کرسکتے، انہوں نے کہاکہ میڈیا میں انتخابات کے منعقد نہ ہونے کی خبریں چلنے سے عوامی رائے متاثر ہوتی ہے، کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ انتخابات کی تاریخ ہم نے دی ہے، اظہار رائے سے متعلق آرٹیکل 19 توموجود ہے لیکن آئین کی عملداری بھی ہر شہری پر فرض ہے، انشااللہ ہر کوئی اپنی آئینی ذمہ داری پوریاں کریگا۔ انہوںنے کہا کہ ملک میں 90 روز میں انتخابات سے متعلق کیس میں صدر مملکت کی جانب سے 8 فروری 2024کو عام انتخابات سے متعلق دستاویز پر دستخط کے بعد سپریم کورٹ نے کیس نمٹا دیاہے۔ قبل ازیںچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ملک میں عام انتخابات 90 روز میں منعقد کروانے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کی تو تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور اٹارنی جنرل نے چیف الیکشن کمشنر کا انتخابات کی تاریخ سے متعلق خط عدالت میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن وفد ملاقات کے منٹس بھی پیش کردیئے،دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ پر صدر کے دستخط نہیں ہیں،انہوںنے دستخط کیوں نہیں کیے، پہلے ان دستاویز پر انکے دستخط کروائیں، پھر آپ کو سنتے ہیں،اٹارنی جنرل صاحب، آپ حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے نمائندے بھی موجود ہیں، صدر مملکت کی طرف سے یہاں کوئی نہیں ہے اور آفیشلی دستخط بھی نہیں ہیں، صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کیے ہیں ،جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے اپنی رضا مندی کا لیٹر الگ سے دیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت کی رضا مندی کا خط کہا ہے، ایوان صدر یہاں سے کتنا دور ہے؟ ہم ایسے نہیں چھوڑیں گے، صدر مملکت کی آفیشل تصدیق ہونی چاہیے، جسکے بعد سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کر دیا گیا ،وقفے کے بعد اٹارنی جنرل نے عام انتخابات 8 فروری کو کرانے سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نوٹیفکیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 217 کے تحت جاری ہوا ہے، جس پر 3 نومبر کی اجرا ء کی تاریخ درج ہے، عدالت کی ہدایت پر انہوںنے نوٹیفکیشن اونچی آواز میں پڑھ کر سنایا جسکے بعد چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوانا شروع کیا۔ عدالت نے اپنے حکمنامہ میں قراردیاہے کہ 2 نومبر 2023 کی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا ہے، قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی تھی اور یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین اختلاف پیدا ہواتھا ، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے حکمنامے پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ، صدر نے خط میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے، صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیاہے ، سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں ہے ، صدر مملکت ایک اعلیٰ عہدہ ہے، حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے،تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں ہے ، صدر مملکت کو اگر سپریم کورٹ سے رائے درکار تھی تو وہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت یہاں رجوع کرسکتے تھے ، عدالت نے قراردیاہے کہ الیکشن کمیشن اور صدرمملکت سمیت ہر آئینی عہدہ رکھنے والے شخص اور آئینی ادارہ آئین کا پابند ہے،سپریم کورٹ آگاہ ہے کہ ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے ہیں، انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہواہے ، یہ باتیں کی گئیں کہ ملک میں انتخابات کبھی بھی نہیں ہونگے، یہ آئین کی اسکیم ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے۔