ہندو مذہب کے ماننے والے اپنے درویشوں کو سادھو کا لقب دیتے ہیں۔ اور ہم مسلمان صوفی کہتے ہیں۔ جب کہ بیلہ وسیع تر معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن صحیح استعمال دریا کے کنارے کا جنْگل یا جزیرہ جو نمی کے باعث گھنی جھاڑیوں اور درختوں سے ڈھکا رہے۔ بدقسمتی سے ہم نہ درویش کے قدر دان ٹھہرے اور نہ بیلے کے محافظ۔ سکھر کے قریب سندھو ندی کے بھیچ سادھو بابا بنکھنڈی مہاراج نے 1823 میں مندر قائم کیا جو آج انڈس سولازیش کی نشانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اٹک سے کراچی تک دریائے سندھ پر یہ واحد جزیرہ ہے، جس پر ملک کا سب سے بڑا مندر (تیرتھ استھان) موجود ہے۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق تیرتھ استھان میں پوجا پاٹ سے دیگر مندروں کے مقابلے میں زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ مندر کے پجاری کو بھی نہیں معلوم کہ بابا بنکھنڈی مہاراج سادھو کہاں سے چلا اور سکھر کے قریب سندھو ندی کا یہ بیلہ اسے کیوں پسند آیا کہ یہاں کا ہی ہو رہ گیا۔ کسی کو بھی سادھو بیلے کی تاریخ نہیں معلوم، سندھ کے ایک دانشور اور ہمارے دوست ڈاکٹر ایوب شیخ نے صرف اتنی تاریخ بتائی کہ ” بشیر دیکھ اس جگہ پھانسیاں ہوتی تھی”۔ اگلی بات اس نے بھی نہیں بتائی کہ یہ پھانسیاں سندھ کے حکمران دیتے تھے کہ انگریزی، جب پوچھا تو بولا،” بس کر نا جتنا بتایا اتنا ہی یاد رکھ آج کا سبق اتنا ہی کافی ہے” ممکن ہے ایوب شیخ اس لیے بھی اس موضوع پر بات نہ کرنا چا رہا ہو کہ بات سے بات نکلے گی۔ ہم سب سادھو بیلہ پر سید خورشید شاہ صاحب کے مہمان اور خورشید شاہ سکھر کے بڑے رہنماء ہیں۔ پاکستان لیٹریچر فیسٹیول سکھر کے اختتام کے دوسرے روز محمد احمد شاہ کی قیادت میں پاکستان کے چوٹی کے شاعروں، ادیبوں، صحافیوں و دانشوروں نے اس دعوت میں شرکت کی جو اپنے اپنے علاقوں میں لوٹ جانے سے رہ گئے تھے۔ معروف دانشور، منور سعید،( منو بھائی) اپنے وقت میں شوبز کا بادشاہ مصطفی قریشی، شاعرہ فاطمہ حسن، محترمہ چاند گل شاہ، ڈاکٹر ہما میر، کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، نامور صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس، دانشور پروفیسر ڈاکٹر جعفر حسن، شکیل خان نعمان خان اور ان اہل علم و فن کے بھیچ میں یہ ناچیز ( بشیر سدوزئی ) سمیت کئی نامور شخصیات موجودہ تھیں۔ ہم نے موقع کو غنیمت جان کر مندر اور پورے جزیرے کا دورہ اور معائنہ کیا۔ صورت حال دیکھ کر دکھ ہوا اور ناامیدی اور بڑھ گئی کہ پاکستان کب ٹھیک ہو گا۔ جی ہاں سادھو بیلہ پر کسی کی توجہ نہیں یہ ہماری تاریخ ہے لیکن تاریخ کسی کو معلوم نہیں، جن کو معلوم تھی وہ تقیسم کی نظر ہو گئے۔ اگر سادھو کو باہر نکال لیں تو بیلہ تو باقی رہ جاتا ہے وہ تو ہمارا ہے، سادھو کو نہ کریں بیلہ ہی صحیح کر لیں سادھو کو خود ہی اطمینان ہو جائے گا۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہم سادھو کو تو نہیں مانتے لیکن بیلے کا بھی ستیا ناس کر دیا۔ پاکستان لیٹریچر فیسٹیول سکھر کے ایک پروگرام میں سید خورشید شاہ صاحب نے محترم صحافی مظہر عباس کے چبتے ہوئے سوالات سے جھنجھلا کر کہا۔ "آپ لوگ 40 سال کا بھی حساب مانگیں، سیاست دانوں سے تو پوچھتے ہو”۔ ان کا مقصد غالبا پاکستان کے آمروں کے حوالے سے تھا۔ اور بات بھی درست ہے، حکمران کوئی بھی ہو وہ مقدس نہیں ہوتا لیکن کیا ،کیا جائے پاکستان میں تو حکمران مقدس ہی ٹھہرے۔ زیادہ عرصہ کا نہ سہی 15سال کا حساب، شاہ صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے جس دوران آپ تسلسل کے ساتھ حکمران رہے۔ سادھو بیلے پر تھوڑی سی رقم بھی خرچ کر لیتے تو یہ خوب صورت جزیرہ آج یوں ویران اور بے کیف نہ ہوتا۔ جس جگہ کو پرکشش اور پررنق ہونا چاہیے تھا وہاں کوئی چار قدم چل نہیں سکتا، تعفن اور بدبو اس قدر کہ کلیجہ منہ کو آئے۔ دنیا اپنے جزیروں کو خوب صورت بناتی ہے، ہم تو بس اپنے بنگلے کو ہی خوب صورت بناتے ہیں۔ سندھ حکومت کے پاس اچھا ڈھب ہے کہ یہ وفاق کی جائیداد ہے۔ حضور آٹھارویں ترمیم میں آپ نے وہ کچھ لے لیا اگر شیخ مجیب الرحمن کو دیا ہوتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ یہ جزیرہ لینے میں کیا مشکل تھی۔ اگر نہیں لیا تو اس کی تعمیر و تزئین کریں وفاق نے گرفتار کرنے رینجرز یا فوج بھیج دی تو عوام حصار بنا کر آپ کو بچا لیں گے۔ جزیرے تک جانے کے لیے کشتی رکنے کہ جگہ پر ایک اینٹ بھی نہیں لگی تو اور کیا لکھوں۔ پچاری صاحب بتاتے تھے کہ کسی ایک میلے میں پچاس ہزار ہندو آتے ہیں۔ جب کے خود خورشید شاہ صاحب نے بڑے فخریہ انداز میں اس کی تصدیق کی کہ بھارت سے مہمان یہاں آتے ہیں۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ اس جزیرے میں کسی کشتی پر بیٹھ کر ہی آتے ہوں گے۔ اس کشتی پر سوار کیسے ہوتے ہوں گے وہ جگہ کہاں ہے جہاں کوئی کشتی پر بیٹھے۔ چند ایک بلاگ لگا کر دیوار ہی تعمیر کر لی ہوتی تو کیا گناہ ہو جاتا۔ 76 برسوں سے کشتیاں لوگوں کو اٹھانے کے لیے کچی مٹی کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوتی ہیں کسی کو خیال تک نہیں آیا کہ ایک دیوار ہی تعمیر کر لیں۔ کشتی کھڑی کرنے کی جگہ بھی مقرر نہیں جہاں ملاح کی سہولت ہو یا وہ سمجھے کے یہاں وہ آسانی سے بندوں کو اتار چڑھا سکتا ہے کشتی وہاں ہی کھڑی ہو گی۔ کشتیاں بھی ایسی کہ لیٹریچر فیسٹیول کے مندوبین کی آمد کی سن کر ان میں ڈیکوریشن کی کرسیاں لا کر رک دیں۔ سید ناصر حسین شاہ صاحب کے فرزند لائق ڈسٹرکٹ کونسل سکھر کے چئیرمین سید کومیل حسین شاہ صاحب جو والد محترم کی طرح خوش مزاج اور خوش اخلاق ہیں پاکستان لیٹریچر فیسٹیول کے ایک پروگرام میں فرما رہے تھے کہ ہم سکھر کو وہاں لے جائیں کہ پہنجاب اور شمالی علاقہ جات جانے والے سیاح دو دن کے لیے سکھر رکیں گئے۔ ناصر شاہ صاحب تو مسلسل پندر سال سے وزیر ہیں سادھو بیلہ کبھی یاد نہیں آیا کہ اس کو خوبصورت بنا کر اچھی اور خوبصورت کشتاں مہیا کی جائیں، چلو اب آپ کر لیں اچھا ہے۔ مئیر سکھر ارسلان اسلام شیخ صاحب بھی اسی طرح کے بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے، لیکن ان کو یاد نہیں کہ ان کے والد محترم ضیاء الحق مرحوم کے خاص الخاص اور مئیر سکھر تھے تب سے اب تک یہ مئیر شپ اسی گھر کی لونڈی ہے، لیکن سکھر کی قسمت نہیں بدلی۔ پاکستان لیٹریچر فیسٹیول میں شریک نوجوانوں کے بدلے موڑ کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سندھ بدل رہا ہے، پاکستان بدل رہا ہے اب ایسا نہیں چلے گا۔ پروگرام میں سید خورشید شاہ صاحب کو نوجوانوں نے زیادہ پذیرائی نہیں دی تو ان کا موڑ کافی خراب ہوا لیکن مجھے سادھو بیلہ میں آکر سمجھ آئی کہ ماجرہ کیا ہے۔ بے شک صدر آرٹس کونسل آف پاکستان محمد احمد شاہ پاکستان میں کلچرل انقلاب لے آئے۔ کراچی میں عالمی اردو کانفرنس شروع کی تو دھوم مچ گئی ہر سال اس میں اصافہ ہی ہوتا رہا۔ دیکھا دیکھی اور کئی لوگوں نے مختلف ناموں سے اسی نوعیت کے پروگرام شروع کئے لیکن قائم نہ رہ سکے۔ اردو کانفرنس 16 سال سے تسلسل سے جاری ہے۔ پھر اس تجربہ کو ملک کے دیگر شہروں میں آزمایا گیا تو لوگوں نے اس سے بھی زیادہ پاکستان لیٹریچر فیسٹیول کو پذیرائی دی۔ لاہور پاکستان لیٹریچر فیسٹیول کا میلہ سجا، تو بہت واہ واہ ہوئی کہ بہت زبردست تھا اور نوجوانوں کی عملی شرکت نے لاہور کی ادبی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ مخالفین کو اس کامیابی کو جھٹلانے کے لیے کچھ نہیں ملا تو یہ راہ نکالی کہ یہ کیا کمال ہے لاہور تو کئی سو سال سے علم و ادب کا مرکز ہے بچہ بچہ فن دوست اور ادب شناس ہے، احمد شاہ اپنے اس برانڈ کو لے کر مظفرآباد پہنچے تو نوجوانوں کے سیلاب سے امن و امان کو خطرہ لائق ہو گیا۔ خطرات اور خدشات اپنی جگہ لیکن ہزاروں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے سیلاب کے باوجود کسی پودے کا پتہ تک نہیں ٹوٹا۔ سری نگر سمیت سارے کشمیر میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ باخبر لوگوں کی زبانی سنا کہ فن اور ادب کو جتنی ترقی ملی وہ اپنی جگہ لیکن تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جو کام احمد شاہ نے دو دنوں میں کیا وہ آزاد کشمیر کے سیاسی لیڈر 76 برسوں میں نہیں کر سکے۔ ظاہر ہے کشمیر کا نام ہو تو مسئلہ کشمیر پر بات نہ ہو کیسے ممکن ہو سکتا ہے، احمد شاہ کے تخلیقی ذہن نے مظفرآباد کے پروگرام کو ڈیزائن ہی ایسے کیا کہ مسئلہ کشمیر پر ادب کا غلاف چڑھا دیا، جب غلاف اترا تو اس کی چمک مودی جی کو بھی محسوس ہوئی اور چیخیں نکل گئیں۔ ابھی اس کی گرمائش ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ احمد شاہ پاکستان لیٹریچر فیسٹیول کے اپنے بے بی کو لے کر سکھر پہنچا 28 اور 29 اکتوبر کو سکھر کے نوجوانوں نے آی بی اے یونیورسٹی کیمپس میں احمد شاہ کا جو استقبال کیا سندھ کے بڑے بڑے لیڈر منہ میں انگیاں دبائے بیٹھے ہیں۔ دو دنوں کے دوران دو لاکھ سے زائد نوجوان وہاں جمع ہوئے ہوں گے۔ سندھ کی تہذیب و ثقافت، زبان و ادب، سچل سرمست سے عبدالطیف شاہ بٹائی اور شیخ ایاز، کاروکاری اور بچیوں کو بااختیار بنانے سے نوجوانوں کو باروزگار بنانے تک ہر مسلے پر کھل کر بات ہوئی۔ آل پاکستان مشاعرہ اور آخری روز موسیقی کے پروگرام میں 50 ہزار نوجوان کیمپس کے اندر تھے اور 30، 35 ہزار دروازے سے باہر، کمیشنر سکھر سمیع الدین صدیقی اور ڈی آئی جی سکھر پورا وقت کیمپس میں موجود رہے۔ کسی ناخوش گوار واقعہ کے خطرات کے پیش نظر دروازوں پر آیس آیس پی اور رینجرز کے سینئیر افسران اپنے ماتحتوں کے ہمراہ کھڑے رہے، سکھر نے ایسا میلہ اور یہ خوشیاں پہلے کبھی نہ دیکھی ہوں گی۔ ہر نوجوان کے چہرے پر خوشی اور اطمینان دیکھا جیسے یہ میلہ اسی کے لیے سجا ہو۔ سکھر کے نوجوانوں نے بھی احمد شاہ کی محنت اور محبت کا حق ادا کر لیا کہ اس بھیڑ بھاڑ میں نہ کوئی پٹاخہ پٹھا اور نہ کوئی نعرہ لگا۔ جس تعداد میں خواتین اور نوجوان بچیاں وہاں پہنچی تھیں کچھ ہونے کا انجانا خوف تو برحال تھا ہی لیکن میری طرح کے اور بھی بہت سارے لوگ حیران رہ گئے کہ نوجوانوں نے خواتین کے احترام اور ان کو تحفظ دینے کی حد کیا کر لی سکھر کو ملک کا تہذیب و تمدن سے بھرا شہر کہلانے کا حق دلا دیا۔ بدتمیزی کی ایک شکایت بھی نہیں آئی اور اس رش میں نہ کوئی دھکم پیل کی رپورٹ ملی۔ شاباش سکھر کے نوجوانوں، مرحبا سکھر کے طالبعلموں، خوش رہو آباد رہو، احمد شاہ کے ساتھ کھڑے رہو، ایک روشن خیال اور خوش حال پاکستان کے لیے۔ ادب فن و ثقافت اور اپنی تہذیب و تمدن کی بحالی کے لیے جو ضیاء الحق نے اس قوم سے چھینی تھی،