کراچی (رپورٹ،اسلم شاہ) بحریہ ٹاون سرکاری سرپرستی میں گھناونے کھیل کا ایک بار پھر پنڈورا بکس کھل گیاہے۔ملک کے سب سے بڑے رہائشی منصوبے کا تنازعہ برقرار ہے،نہ زمین نام ہے نہ اس کے لے آوٹ پلان، نہ نقشہ جات قانونی ہے، عدالتی حکم پر نہ 460 ارب روپے فنڈز ادا کیئے، نہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنا، عدالتی حکم پر تین رکنی (سپریم کورٹ،وفاق اور صوبائی حکومت کے نمائندوں پر مشتمل) کمیٹی بھی نہ بن سکی اور تین سال بعد بھی نہ الاٹمنٹ، نہ ریگولرایزیشن ہوا، نہ منسوخ الاٹمنٹ بحال ہوسکا، نہ لے آوٹ پلان منسوخی، نقشہ جات منسوخ اور اب پورے منصوبے کو غیر قانونی قرار دینے پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایک جانب بحریہ ٹاون کے نہ لے آوٹ پلان (MDA سے منظور شدہ)،خرید و فروخت کا اجازت نامہ، نقشہ جات کی منظوری دینے والا ادارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بحریہ ٹاون کی سیل NOC منسوخ کرنے کا ایک انوکھا حکمنامہ جاری کیا ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاون کے مالک ریاض ملک کے خلاف سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوتے ہی ملک بھر میں بحریہ ٹاون منصوبے کے خلاف چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون کی 22اپیلیں زیرالتواء میں اعترات سامنا آیا کہ 11747ایکٹر اراضی الاٹمنٹ منسوخ ہوچکا ہے بحریہ ٹاون نے 16896ایکٹڑ قبضہ ہے اس زمین کی ادائیگی نہ ہوسکا یعنی مفت میں زمین حاصل کیا تھاجبکہ MDAنے 12237ایکٹر اراضی کا قبضہ کی تصدیق کیا ہے اور دیگر 4659ایکٹر اراضی کا ریکارڈ پیش نہیں کیا جبکہ بحریہ ٹاون نے 37777زمینوں پر غیر قانونی قبضہ رکھا ہے،سرکاری اداررے ریکاڈز فراہم نہیں کررہے ہیں زمین کا تنازعہ برقرار ہے عدالت نے 460ارب روپے زمین کی نرخ مقرر کیا تھااگر ذائد ہے تو رقم بھی بڑھایا جائے گابحریہ نے 460ارب روپے میں اب تک60.72ارب روپے ادا کیا جن میں صرف بحریہ تاون نے24.26ارب روپے جمع کرائیں عدالت میں ملک ریاض حسین، احمد علی ریاض (بیٹا)،بیناریاض ملک(بیوی)،زین ملک (داماد) کو جمع کرانے تھے لیکن برطانہ سے136ملین پونڈ، امریکہ سے44ملین ڈالر 10غیر ملکی کمپنیوں اور دیگر شخصیات نے جمع کیا تھا جو کہ پاکستانی روپیہ میں 35ارب روپے بنتی ہیں عدالت میں ان کے بارے میں عدالت نے دریافت کیا کہ ان کا بحریہ گروپ سے کیا تعلق ہے اور انہوں نے کس حیثیت میں یہ رقم جمع کرائی۔سپریم کورٹ نے بحریہ فاؤنڈیشن کے تمام غیر قانونی کاموں پر 460 ارب روپے جرمانہ عائد کرکے زمین کی الاٹمنٹ کے ساتھ تمام غیر قانونی امور کو ریگولرائز کرنے کی ہدایت کی تھی۔عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ اگر مقررہ وقت پر تمام رقم کی ادائیگی نہ ہوئی تو قومی احتساب بیورو(نیب) اپنا ریفرنس دائرکر سکتا ہے،جبکہ سپریم کورٹ نے تمام امور کو نمٹانے کے لئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا تھا جس پر اب تک عملدرآمد نہ ہوسکا۔عدالتی حکم پر بحریہ ٹاؤن کو ریگولرائز کرنے اور قانونی بنانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ایک ایک نمائندے کے ساتھ سپریم کورٹ کا ایک نمائندہ بھی کمیٹی کیلیئے نامزد کیا جانا تھا تاہم عدالتی فیصلے کے ساڑھے تین سال گزر جانے کے باوجود کمیٹی نہ بن سکی۔ واضح رہے کہیہ ایک حقیقت ہے کہ بحریہ ٹاؤن ملک کا سب سے بڑا رہائشی منصوبہ ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ رہائش پذیر ہیں جبکہ سیکٹروں افراد نے سرمایہ کاری کر رکھی بلکہ اب بھی کر رہے ہیں۔یہ ایک ماڈل رہائشی منصوبہ بن گیا ہے جسے سرکاری سرپرستی میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ایک الگ ریاست قائم کرنے کے ساتھ غیر قانونی تعمیرات میں تیز ی آ گئی ہے۔بحریہ ٹاؤن میں اپنا لے آوٹ پلان،غیرقانونی الاٹمنٹ، غیر قانونی منصوبہ بندی،اپنا نقشہ جات کی تشکیل، خریدو فروخت کا اپنا قانون رائج ہے جہاں نہ کسی ادارے نے لے آوٹ پلان منظور کیا، نہ کسی ادارے نے نقشہ جات کی منظوری دی اور نہ کسی ادارے نے خرید و فروخت کا اجازت نامہ جاری کیا۔اس ضمن میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے براہ راست زمینوں کی فروخت کے بجائے 70 سے زائد پراپرٹی ڈیلرز کے ذریعے خرید و فروخت کے اجازت نامے بڑے پیمانے پر جاری کیئے ہیں۔ زمینوں کی الاٹمنٹ، لیز اور سب لیز نہ ہونے کی وجہ سے اربوں روپے کا سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔دھوکہ دہی کے ذریعے تمام نامکمل کاغذات دیکر لاکھوں اور کروڑوں روپے بٹورنے کا عمل بھی جاری ہے۔ بحریہ ٹاون میں زمین کا تنازعہ حل کیئے بغیر غیر قانونی رہائشی و تجارتی منصوبے کی تعمیرات اور پانچ مرلے کی زمین پر آٹھ دس منزلہ اور بیس منزلہ کے علاوہ بلند و بالا عمارتیں کی تعمیرات تیز ہو گئی ہے۔چھوٹے بڑے منصوبے کے اعلان کے بجائے اب پراپرٹی ڈیلرز کے ذریعے عوام سے کروڑ روپے وصول کرنے کا عمل جاری ہے۔دھوکہ فراڈ کے اس منصوبے کے ذریعے ایک طرف عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے،دوسری جانب بورڈ آف ریوینو، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ڈپٹی کمشنر ملیر سمیت تمام اداروں نے بحریہ ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور بحریہ ٹاون کسی ادارے کو جوابدہ نہیں ہے۔ تمام ادارے بھاری نذرانہ وصول کرکے کارروائی سے گریزاں ہیں۔سندھ حکومت نے بحریہ ٹاون میں سابق صدر آصف زرداری کے شریک پارنٹر ہونے کی وجہ سے غیر قانونی بحریہ ٹاون کی اسکیم پر نہ صرف خود بلکہ تمام اداروں نے خاموشی اختیار کرنے کے ساتھ سب کی زبانیں بھی گنگ ہوگئی ہیں۔پولیس بھی بحریہ کے حدود میں کاروائی سے اجتناب برتی ہے بلکہ ان کی ٹانگیں کانپتی ہیں،جبکہ عوام سے سرمایہ کاری کے نام پر لوٹ مار جاری ہے۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل اسحاق کھوڑو کی تعیناتی کے باوجود سابق ڈائریکٹر جنرل منظور کاکا کے کرپشن کا سٹسم بدستور چل رہا ہے۔پہلے وہ کینیڈا میں بیٹھ کر پورا سسٹم چلا رہے تھے اب جیل میں بیٹھ کر وہی کام کر رہے ہیں۔ایس بی سی اے کے تمام متعلقہ افسران کو بحریہ ٹاون کے خلاف کسی بھی کاروائی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ منظور کاکا کئی سال قبل ادارے سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں لیکن سٹسم اور ادارے پر اب بھی ان کا مکمل کنٹرول ہے۔بحریہ ٹاون کے حوالے سے تمام ادارے قانون کے مطابق کاروائی کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بھی مجرمانہ سرگرمیاں میں ملوث قرار دیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے نہ غیرقانونی کاموں کی اجازت دی تھی اور نہ کسی غیر قانونی عمل کا حصہ بننے کی اجازت دی تھی۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ،سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاون کی زمین کو ریگویلرایزیشن کا عمل نہ ہوسکا۔سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018ء اور 16 اکتوبر 2018ء کے فیصلے پر
بحریہ ٹاون کی زمین غیرقانونی آلاٹمنٹ منسوخ، بحریہ ٹاون لے آوٹ پلان خارج، دیگر غیر قانونی کام منسوخ کر دی گئی تھیں۔24 جنوری 2014ء کے آلاٹمنٹ ہونے والی زمین 14,617 ایکٹر منسوخ اور اس حوالے ہونے والے حکمنامے کو واپس لے لیا گیاتھا۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاون کے کسی بھی منصوبے کی ادارے سے این او سی نہیں لیا گیا ہے، نہ ہی درخواست جمع کرائی گئی ہے،نہ چالان،نہ بلڈنگ پلان کے نقشہ جات جمع کرائی گئی ہے۔اس بارے میں اتھارٹی کو آگا ہ کردیا گیا ہے جیسے ہی حکم ملے گا کاروئی کریں گے۔ایک دوسرے افسر نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ بحریہ ٹاون کے متعدد منصوبے کی سرمایہ کاری کی بھی این او سی نہیں لی گئی ہے، نہ ہی کوئی ہمارے پاس ان کا منصوبہ زیر التواء ہے۔بحریہ ٹاؤن کے ساتھ سابق صدر آصٖف زرداری کا نام جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے افسران کارروائی سے گریز کررہے ہیں۔پہلے کارروائی کرنے والے افسران طویل عرصے تک زیر عتاب رہے چکے ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کیس بحریہ ٹاؤن منصوبوں کے آغاز سے پہلے اور بعد کے فیصلے کو بھی ایس بی سی اے نے اپنے ادارے کی جانب سے کبھی بھی ان پر عمل درآمد کی زحمت گوارا کی گئی ہے۔اس سلسلے میں بحریہ ٹاون کی طرف سے خلاف ورزی کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔بحریہ ٹاون کے ذریعے خریدی گئی نجی اراضی جو 5 دیہہ یعنی پولہاری، لونگ جی، کنجرا، کلہار اور کھاکھرو کی حدود میں آتی ہے اور 16,896 ایکڑ حصے پر مشتمل ہے،بورڈ آف ریوینو کے افسران کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کی زمین ریگولرائزیشن نہ ہوسکی۔زمین کی ریگولرائزیشن کیلیئے 14لاکھ سے زائد بحریہ ٹاون کے الاٹیز ہیں۔بحریہ ٹاون کراچی میں خود لیز پر کوئی حق نہیں ہے اس کے نتیجے میں سیلز ڈیڈ، سیل گفٹ ڈیڈ، اور جنرل پاور آف اٹاونی کے طریقہ کار سے چھوٹ اور کچھ وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں کی وصولی بھی نہیں کی جارہی ہے جس میں کیپیٹل ویلیو ٹیکس، گین ٹیکس،عام سیلز ٹیکس شامل ہے۔ انکم ٹیکس ایکٹ، پراپرٹی ایکٹ، رجسٹریشن ایکٹ اور ڈاج ٹکٹ ایکٹ کے تحت اسٹامپ ڈیوٹی وغیرو کا اطلاق ہوتا ہے۔بحریہ ٹاون کی نئی کہانی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ایک حکمنامہ میں ملک کے سب سے بڑے رہائشی منصوبے بحریہ ٹاون کو زمینوں کی فروخت سے روک دیا گیا ہے۔ اس بارے میں ایک حکمنامہ بھی جاری کیا ہے۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے منصوبہ کی سیل اور ایڈورٹائزمنٹ کی NOC منسوخ کردی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک،سیل اینڈ ایڈورٹائزمنٹ کا کہنا ہے کہ NOC کی منسوخی اسکروٹنی کی مد میں واجبات ادا نہ کرنے پر کی گئی ہے، انہوں نے واضح کیا کہ بحریہ کا ایک چیک باونس ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں بحریہ انتظامیہ کو متعدد شوکاز نوٹس بھی جاری کئے گئے ہیں لیکن انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا اس لیئے ادارے نے مجبورا” یہ اقدام اٹھایا ہے۔