سوشل کنسٹرکٹ یا میں اسے معاشرتی / سماجی سانچہ کہہ سکتا ہوں ۔ ماڈرن سوشیالوجی یا سماجیات میں یہ انتہائی زیرِ بحث نظریہ ہے ۔اس کی چند اقسام بھی دریافت کی گئی ہیں لیکن بات کو سادہ ترین رکھنے کے لیے ہم اسے معاشرتی / سماجی سانچہ ہی کہیں گے ۔اس نظریے کے مطابق انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اُس کے پاس چیزوں ، معاملات کی تفہیم اور تعریف کے لیے بہت کم اختیار ہوتا ہے ۔ وہ جس ماحول میں جنم لیتا ہے وہاں اُس کے لیے اچھا بُرا سب کچھ اُس کے خاندان ، کلچر ، ذیلی کلچر کی طرف سے پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے ۔
درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ لڑکی کو کیسا ہونا چاہیے ، لڑکے کیسے ہوتے ہیں ، کیا اچھا ہے ، کیا بُرا ہے ، کیا سچ ہے ، کیا جھوٹ ہے وغیرہ وغیرہ
آپ افریقہ کے تاریک جنگلات جہاں اب بھی جدید تہذیب نہیں پہنچی سے سفر شروع کیجیے اور کراچی ، چیچہ وطنی ، پشاور سے ہوتے ہوئے کابل پہنچ جائیے ، درج بالا تمام حقیقتوں کو ہر جگہ اور ماحول میں مختلف پائیں گے ۔ہر تہذیب کی اپنی شناخت ، خصوصیات اور سچ اور جھوٹ ہوتا ہے اور اُس تہذیب میں جنم لینے والے بچے کو اِس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی اپنے کلچر ، خاندان کے مطابق ان سب معاملات میں معاشرتی / سماجی سانچے ملتے ہیں جن میں اُسے خود کو فٹ کرنا ہوتا ہے ۔
یاد رہے کہ یہ کوئی دینی یا مذہبی تحریر نہیں ۔سوشل کنسٹرکٹ کو چیلنج کر کے قبول یا رد کرنا معمولی بات نہیں ۔ مذاہب میں ہندو ، بدھ مت ، سکھ ، عیسائی اور یہودی وغیرہ کو ماڈرن دور میں بھی خال خال ہی کوئی بچہ بلوغت کو پہنچنے کے بعد چیلنج کر سکتا ہے ۔اسلام میں بھی پیدائشی مسلمان ، اسلام تو کجا اپنے فرقے / فرقچی کو چیلنج کرتے ہوئے بھی پسینہ پسینہ ہو سکتا ہے اور بہت کم پیمانے پر ہی سہی لیکن یہ ہوتا ہے ۔
یہ جدید دور ہے تو سہولتوں کا انبار ہونے کے باوجود ہم اپنے لیے تیار کیے گئے سانچوں میں بہ آسانی ڈھل جاتے ہیں ۔
ایک بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والا بارہ ربیع الاول کو بائیک سے سائلنسر نکال کر مین شاہراؤں کو بلاک کرتے ہوئے کان پھاڑ اسپیکروں سے مخلوقِ خدا کو ستاتے ہوئے خود کو عبادت میں مصروف سمجھتا ہے کہ اُسے یہی سانچہ ملا تھا ۔ایک شیعہ بھی کچھ مختلف رسومات کے ساتھ کچھ زائد دنوں کے لیے شاہرائیں بلاک کر کے اپنے تئیں عشق حسین رضی اللہ عنہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ اُس نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی اُسے یہی معاشرتی سانچہ ملا تھا ۔
ایک دیوبندی درج بالا دونوں ہی کی طرح اپنے کرتا دھرتاؤں کو حق اور سچ کی انمٹ لکیر سمجھتا ہے ، یہ بھی دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے کے سبب ملنے والے سانچے کے طفیل ہی ہے ۔مسلم دنیا میں ” کُل حیا ” کا بوجھ عورت کے کاندھوں پر موجود ہے جس کا اسلام یا دین سے کوئی تعلق نہیں یہ محض ایک معاشرتی سانچہ ہے جس میں مسلم عورت کو خود کو فٹ کرنا ہوتا ہے ۔درج بالا تمام مثالوں میں دماغ اور سوچنے کی صلاحیت کا استعمال زیرو ہے ۔یہ معاشرے ، خاندان کی طرف سے دیے گئے سانچے ہیں جن میں بچے کو ڈھالا جاتا ہے ۔
جب آپ کسی تعلیم یافتہ غیر مسلم فرد سے بالعموم مشرق میں اور بالخصوص مغرب میں بات کرتے ہیں تو وہ دین اسلام کے حوالے سے نقلی دلائل مطلب قرآن و حدیث سے پہلے محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ہستی کو ڈسکس کرے گا ۔میری ذاتی رائے میں دنیا کی تاریخ کو ہم تین بڑی قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔
مذہبی تاریخ ، فرقہ وارانہ تاریخ اور عمومی تاریخ یا جنرل ہسٹری ۔
درج بالا تینوں قسم کی تاریخ میں کسی غیر مسلم کے لیے سب سے اہم عمومی یا جنرل ہسٹری ، پھر مذہبی اور پھر فرقہ وارانہ تاریخ ہوتی ہے ۔مسلمانوں کا معاملہ مختلف اور الٹ ہے مسلمان فرقہ وارانہ تاریخ ، مذہبی تاریخ اور پھر عمومی تاریخ کی طرف جاتے ہیں ۔اور مسلمانوں کا یہ طرز عمل بنیادی طور پر اپنے فرقہ وارانہ سانچے کی وجہ سے ہی ہوتا ہے ۔آپ پورا مغرب گھوم جائیے ۔ مغرب کی ہر یونیورسٹی کے سوشل سائنسز کے ڈیپارٹمنٹ میں جائیے اور ایک تجربے کی درخواست کیجیے کہ ” کوئی سو پچاس ، پانچ سو خاندانوں پر مشتمل کسی مخصوص مذہب یا قبیلے سے متعلق سیٹ اپ بنائیے ۔ پھر اُس سیٹ اپ میں پیدا ہونے والے بچوں کے بچپن ، لڑکپن اور جوانی کا مطالعہ کیجیے کہ کتنے فیصد بغیر کسی بیرونی انسانی مداخلت و معاونت کے اپنے لیے موجود سانچوں کو توڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں ؟؟؟
یہ مفروضہ ہے لیکن یہ سائنسدان تجربے سے پہلے ہی نتائج بتا دیں گے کہ ہمارے سامنے عمومی تاریخ میں بھی ایسا کبھی نہیں ہوا تو تجربے کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے ۔اب مغرب میں موجود یہی اسکالرز ، ریسرجرز ، اور طلبہ جب عمومی تاریخ میں سرزمین عرب میں پیدا ہونے والے ایک بچے صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی سائنس اور نفسیات کا علم گونگا ہو جاتا ہے ۔
وہ بچہ ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) جب چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد نبوت کا اعلان کرتا ہے تو جنرل ہسٹری بتاتی ہے کہ سامنے موجود بدترین دشمنوں میں سے کسی ایک شخص کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ نبوت کا اعلان کرنے والے محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر الزام دھر سکے کہ اے محمد تُو نے بچپن میں فلاں بچے کے ساتھ بدتمیزی کی تھی ، فلاں معاملے میں جب تیرا کسی لڑکے سے جھگڑا ہوا تھا تو تیرے منہ سے گالی نکلی تھی ۔ فلاں عورت کے ساتھ تیرا تعلق تھا کہ جب تو جوانی کی سرحد میں داخل ہوا تھا ۔ فلاں معاملے میں تُو نے خیانت کی تھی اور جھوٹ بولا تھا کہ جب تُو نے تجارت شروع کی تھی یا فلاں محفل میں تُو نے شراب پی تھی تو ہم تمھیں نبی کیسے مان لیں ؟؟
درج بالا تمام عیب اُس دور اور ماحول میں معمول کی باتیں تھیں ۔ لیکن اس کے برعکس نبوت کا اعلان کرنے والے کے پاس اُس بیمار معاشرے کی طرف سے ملنے والے دو میڈل ” صادق اور امین ” موجود تھے ۔
بُت پرستی اُس وقت کا عوامی اور سرکاری مذہب تھا یعنی سماجی اور معاشرتی سانچہ تھا لیکن یہ بچہ ( صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ) اُس سانچے سے نہ صرف خود بچا بلکہ اُس سانچے کو تن تنہا چیلنج کیا ، نبوت سے پہلے بت پرستی میں شریک نہ ہو کر اور نبوت کے بعد بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ کر توحید کا پرچم گاڑ کے ۔
یہاں تک تو بات سوشل کنسٹرکٹ کو چیلنج کرنے کی ہے کہ جس کی تفصیلات جان کر مغرب میں موجود کوئی بھی طالب علم ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنے سماجی سانچے کو بچپن سے جوانی تک مسترد کر دے ۔اس کے بعد وہ قرآن و حدیث یعنی اسلام کے عمومی ذرائع سے رجوع کرتے ہیں جہاں انہیں عقل اور دانش کی ایک نئی دُنیا ملتی ہے ۔
چونکہ سوشیالوجی میرا مضمون ہے اس لیے اپنے مضمون سے ایک اصطلاح کی مدد سے کوشش کی ہے کہ سمجھا سکوں کہ کیوں مغرب میں بالخصوص تعلیم میں مصروف نوجوان نسل محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہستی کو تاریخ انسانی میں مضبوط ترین دماغ اور اعصاب رکھنے والی شخصیت مانتے ہوئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دامنِ شفقت سے جُڑتی چلی جا رہی ہے ۔
یہ دیگر معجزات پڑھ کر مسلمان ہونے والی نسل نہیں کہ جنھیں آج کے دور میں سائنسی توجیحات سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک مجسم انسان کی اپنے طاقتور ترین ماحول کو اور معاشرت کو چیلنج کر کے اُسے بدلنے والی ہستی کی سیرت طیبہ کا کرشمہ ہے ۔آپ کے ان گنت معجزات قرآن و حدیث و تاریخ میں موجود ہیں جو اپنے وقت کے ساتھ مخصوص تھے لیکن آپ کی سیرتِ طیبہ کی تاٹیر آج بھی عالم میں چار سُو سلیم الفطرت انسانوں کو اپنی لازوال کرنوں سے متاثر کر رہی ۔ اس ڈیجیٹل دور میں اس پوری کائنات میں کوئی ایک شخص نہیں کہ جو اپنی خلوت اور جلوت کی مکمل تفصیلات سامنے لا سکے ۔
یہ کمال تخلیقِ کائنات کے بعد صرف ایک ہی ہستی کے حصے میں آیا اور اس ناقابل تردید کمال پر ہی کھوکھلی تہذیبیں ، کھوکھلے مفکر سیخ پا ہیں اور اپنے تئیں خود ساختہ پیمانوں کی مدد سے چمکتے ، دمکتے محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو گہنانے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔
لیکن
۔۔۔۔۔۔
اتنی صدیوں تلک آ گئی روشنی ! تا قیامت ضیا آپ کی جائے گی
کہکشائیں ہیں کیا ! گردِ نعلین ہیں ! آپ کی ضو کا کوئی کِنارا نہیں
کتنے آئے گئے ! آئیں گے جائیں گے ! فلسفی منطقی ! رہبر و رہنما
عقل کی عشق کی سلطنت پہ مگر ! بِن محمد کسی کا اِجارہ نہیں
ایک اُنگلی نہیں جو اُٹھے آپ پر ایسا پاکیزہ دامن کسی کا نہیں !
رب٘ نے ایسا کسی کو نکھارا نہیں ! رب٘ کو اتنا تو کوئی بھی پیارا نہیں
آپ کی گفتگو جتنی محفوظ ہے اُس کے ہر لفظ میں ہیں خزانے چُھپے !
آپ جیسا سوا آپ کے کون ہے !! رب٘ نے پھر کوئی اُم٘ی اُتارا نہیں
نوعِ انساں کے ہر دُکھ کی ٹھہری دوا سیرتِ مصطفیٰ !! دِینِ ختم الرُسل !!
آپ سب کے نبی آپ سب کے شفیع !! یہ اُجالا ہمارا تمھارا نہیں
عابی مکھنوی