اسلام آباد(شِنہوا)اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی میں حال ہی میں قائم چین-پاکستان جوائنٹ وہیٹ مالیکیولر بریڈنگ انٹرنیشنل لیبارٹری میں ایم فل کے 24 سالہ طالب علم حافظ سلمان گندم کے دانوں کی جسامت اور شکل کا تجزیہ کرنے کے لیے ڈیجیٹل امیج پروسیسنگ میں مصروف ہیں۔سلمان نے شِنہوا کو بتایا کہ ہم چینی ماہرین اور سائنس دانوں کے ساتھ مل کر گندم کی بہترین اقسام تیار کر رہے ہیں تاکہ فصل کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے اور بھوک کا خاتمہ کیا جاسکے، جو کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ایک ہے۔انہوں نے کہا کہ چینی سائنسدانوں نے پہلے ہی ڈی این اے پرمبنی ٹیکنالوجیزکا استعمال کرتے ہوئے زیادہ پیداوار دینے والی، بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھنے والی اقسام تیار کی ہیں اور اپنے ملک میں گندم کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس نئے اقدام کے تحت چینی سائنسدان پاکستان میں موزوں گندم کی بہتر اقسام حاصل کرنے کے وسائل کے طور پر علم اور معلومات فراہم کریں گے۔
چینی وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے سائنس اور ٹیکنالوجی پارٹنرشپ پروگرام کے تحت مالی اعانت سے قائم کردہ اس لیب کا مقصد فوڈ سیکورٹی ، انسانی وسائل کی ترقی اور علم اور تحقیق کے اشتراک کے ذریعے پاکستانی طلباء اور سائنسدانوں کو تربیت یافتہ بنانا ہے۔شِنہوا کے ساتھ بات چیت میں، اس منصوبے کے سربراہ اور قائداعظم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اویس رشید نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت زرعی تعاون، بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک اہم منصوبہ ہے جس سے پاکستان کو سماجی و اقتصادی فوائد حاصل ہورہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ فوڈ سیکورٹی نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اور اس کے لیے ہمیں پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے بنیادی غذائی فصلوں کی مسلسل ترقی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعلیٰ معیار کی گندم کی اقسام تیار کرنے کے لیے پاکستان چینی تجربے سےبہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔رشید جو 2013 سے 2018 تک چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے ساتھ بطور سائنسدان بھی وابستہ رہے ہیں، نے کہا کہ لیبارٹری میں حالیہ تحقیق کے نتائج کافی حوصلہ افزا تھے کیونکہ محققین گندم کی ایسی اقسام تیار کرنے میں کامیاب رہے جو روایتی مقامی اقسام سے 8 سے 10فیصد زیادہ پیداواردیتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نئی اقسام کی رجسٹریشن کے عمل کی طرف جا رہے ہیں اور امید ہے کہ اس منصوبے سے حاصل ہونے والی مصنوعات اگلے دو سے تین سالوں میں کسانوں کے لیے دستیاب ہوں گی۔پروفیسر نے کہا کہ بین الاقوامی مکئی اور گندم کی بہتری کے مرکز سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں نے پاک چائنہ لیب کے ساتھ تعاون میں دلچسپی ظاہر کی ہے جس سے مستقبل میں گندم کی اقسام کی ترقی کے لیے روابط کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔مشترکہ لیبارٹری کے قیام سے پاکستان نے قومی زرعی تحقیقی مرکز (این اے آر سی) میں پہلی بارگندم کی تیزرفتار افزائش کا مرکز بھی قائم کیا تاکہ سازگار حالات کے ساتھ پودے فراہم کرکے کم سے کم وقت میں گندم کی متعدد اقسام تیار کی جاسکیں۔این اے آر سی کے گندم کی افزائش کے پروگرام کے ایک سینئر سائنسدان زاہد محمود نے شِنہوا کو بتایا کہ پاکستان میں گندم کی افزائش اور نئی اقسام کی رجسٹریشن ایک طویل عمل ہے جس میں عام طور پر 12 سے 15 سال لگتے ہیں۔محمود نے کہا کہ تیز رفتار افزائش کے پروگرام کی بدولت ہم ایک نئی قسم تیار کرنے کے لیے چھ سے سات سال کا عرصہ کم کرنے کے قابل ہیں اور ہم نے چین سے گندم کے نمونے حاصل کیے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد چینی اقسام کی اچھی خاصیتوں کو متعارف کرانا ہے جن میں گندم کی سازگار اقسام، کم سے کم وقت پر نئی مصنوعات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے پاکستانی اقسام کو متعارف کروانا شامل ہیں۔