کراچی(نمائندہ خصوصی) ایڈیشنل انسپکٹرجنرل سندھ پولیس خادم حسین رند نے کہا ہے کہ جرائم کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر دم لیں گے، ایسو سی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے ساتھ ملکر بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضوں کے روک تھام کے لیے کمیٹی بنائی جائے گی، وسائل اور پولیس فورس کی کمی اور نامساعد حالات کے باوجود پولیس کراچی شہر میں جرائم میں کمی لانے میں کامیاب ہوئی، اصل کامیابی وہ ہے جب کراچی کے شہری اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں گے۔ یہ بات انھوں نے آباد ہاؤس میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئی کہی۔ اس موقع پر آباد کے سرپرست اعلیٰ محسن شیخانی،آباد کے چیئرمین آصف سم سم،سنیئر وائس چیئرمین ابراہیم ایس حبیب،وائس چیئرمین ذیشان صدیقی،چیئرمین سدرن ریجن مصطفی شیخانی، ڈی آئی جی سی آئی اے احمد نواز، ضلع ایسٹ،ویسٹ اور ساؤتھ کے ایس ایس پیز، و دیگر پولیس افسران اور آباد ممبران کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ اے آئی جی خادم حسین رند نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران کراچی شہر میں جرائم کی وارداتوں میں گن شاٹ سے زخمی ہونے والوں کی شرح 2 فیصد سے کم ہوکرایک عشاریہ 25 فیصد ہوئی ہے، دیگر اسٹریٹ کرائم میں واضح کمی آئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری اصل کامیابی وہ ہے جب کراچی کے شہری خود کو محفوظ سمجھیں گے۔خادم حسین رند نے کہا کہ بلڈرز کی زمینوں پر قبضے روکنے کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسی بنائی جائے گی۔ شارٹ ٹرم پالیسی میں بلڈرز اور ڈیولپرز اپنے علاقے کے ایس ایس پی کو واٹس اپ کے ذریعے زمینوں پر قبضے کی شکایت کریں گے جو گھنٹوں میں حل کی جائیں گی جبکہ لانگ ٹرم میں آباد کے نمائندوں،پولیس اور ریونیوں افسران کے ساتھ ڈپٹی کمشنر پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی۔اے آئی جی نے بتایا کہ انگریزوں کے دور میں 450 افراد کے لیے ایک پولیس اہلکار ہوتا تھا اور اس وقت جرائم بکری چوری تک محدود ہوتے تھے اس وقت کراچی میں 4800 افراد پر ایک پولیس اہلکار ہے۔انھوں نے کہا کہ کراچی میں مافیا کو سسٹم کا نام دیا جارہا ہے جوانتہائی افسوسناک ہے،سندھ پولیس ایسے کسی سسٹم کو نہیں چلنے دے گی۔بلڈرز اور ڈیولپرز کو بھتہ کے لیے ایران اور دبئی سے کالیں آتی ہیں جن کے خلاف کارروائی ہورہی ہے،ایک بلڈر سے بھتہ نہ ملنے پر اس کے بندے کو قتل کیا گیا پولیس نے اسی جگہ حملہ کرنے والے کو مارا۔بلڈرز سے بھتہ مانگنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔خادم حسین رند نے کہا کہ کراچی میں پولیس نفری کی تعداد 45 ہزار ہے لیکن تھانہ جات کی سطح پر صرف 9 ہزار اہلکار کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔اے آئی جی نے بتایا کہ کراچی میں 6 ہزار بڑی صنعتوں سے 40 فیصد ملازمین کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے،ایسے میں جرائم کی شرح کا بڑھنا کوئی عجوبہ نہیں ہے۔صنعتی اور تعمیراتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے کراچی کی تاجر برادری اور بلڈرز اور ڈیولپرز کو پرامن فضا فراہم کرنے کی بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔ قبل ازیں محسن شیخانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جیسے ہی تعمیراتی پروجیکٹ شروع کرتے ہیں تو فوری طور پر علاقے کا ایس ایچ او پہنچ جاتا ہے لہذا تھانہ جات کی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔کراچی میں کچھ تھانوں کو ماڈل تھانے بنانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ہماری کوشش ہے کہ وزیر داخلہ اور کمشنر کراچی کے ساتھ ملکر کمیٹی بنائی جائے۔محسن شیخانی نے کہا کہ آباد پورے پاکستان میں تعمیراتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی ہے،اس وقت معاشی بحران کی وجہ سے ہمارے 50 فیصد پروجیکٹس بند پڑے ہیں۔انھوں نے کہا کہ منشیات کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے،اس وقت منشیات کی وجہ سے پوری پوری کالونیاں تباہ ہورہی ہیں۔ہم سب ملکر اپنی نوجوان نسل کو اس لعنت سے چھٹکارہ دلانا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین آباد آصف سم سم نے کہا کہ زمینوں پر قبضوں سے متعلق شکایات کا فوری ازالہ ہونا چاہیے۔سال 2013 تک کراچی میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب تھی ایسے وقت میں پولیس نے بلڈرز اور ڈیولپرزکا بھرپورساتھ دیا۔آصف سم سم نے کہا کہ کم وسائل کے باوجود سندھ پولیس کی کاکردگی قابل تحسین ہے،آباد سندھ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ سندھ پولیس کی نفری اور وسائل میں اضافہ کیا جائے۔پولیس اہلکاروں کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جائے۔ آصف سم سم نے کہا کے حال ہی میں ڈی آئی جیز سطح کی ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا،جس میں بلڈرز اور ڈیولپرز کے تحفظ کے لیے ایس او پیز طے کی گئی تھیں، ان پر عمل درآمد کرایا جا ئے۔تاکہ ہم پرفزا ماحول میں اپنا کام جاری رکھ سکے۔