تائی یوآن(شِنہوا) گزشتہ کچھ دنوں سے تصورحسین قینوا کے پودے لگانے میں مصروف ہیں۔ رواں سال کی اچھی فصل سے پاکستانی کسان تصورحسین کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ مزید قینوا اگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصور حسین کے آبائی شہر خانیوال میں، کسانوں نے زیادہ منافع کمانے کے لیے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے گندم کی بجائے قینوا کی کاشت شروع کی تھی ۔ لیکن خشک آب و ہوا اور مشینی پیداوار کی سہولیات کی کمی سے، اس صحت بخش خوراک کی پیدوار کم رہی تھی۔محمد نواز شریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر، ملتان کے مقامی پروفیسر شاہد اقبال کا کہنا ہے کہ پودے لگانے سے کٹائی تک یہ سب ہاتھوں سے کرنا پڑتا ہے اور زمین میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہے۔ یہ عوامل قینوا کی پیداوار کو شدید متاثر کرتے ہیں۔
اسی طرح کے مسائل کا سامنا بنجر اورکم بارشوں والے چین کے شمالی صوبے شنشی کی جیا چھی ایگریکلچر ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ کی سی ای او وو شیان گیون کو بھی تھا،تاہم برسوں کی سائنسی تحقیق کے بعد، مقامی سطح پر قینواکی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
2022 میں، جِنگلی کاؤنٹی، جہاں وو زیادہ تر قینوااگاتی ہیں، نے 166 ایکڑ کے رقبے پر محیط قینواکی کاشت کے 26 نمائشی پلاٹ بنائے ہیں، جن کی پیداوار 1ہزار500 کلوگرام فی ایکڑ ہے۔وو شیان گیون نے بتایا کہ سعودی عرب کی طرف سے منعقدہ ایک تعلیمی تقریب میں انہوں نے پاکستان میں قینواکی افزائش کے بارے میں سیکھا جس کے بعد میں نے خود سے کہا کہ کیوں نہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ مل کر قینوا کی پیداوار بڑھانے کے لیے کام کیا جائے ؟’، تو میں نے مشترکہ طور پرشنشی زرعی یونیورسٹی کے ساتھ زرعی تعاون کے منصوبے کے لیے وزارت سائنس وٹیکنالوجی کو درخواست دی۔نئے جینیاتی مواد میں جدت اور مخصوص فصلوں میں خشک زمین کی کاشت کاری کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے منصوبے کی مالی اعانت وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے کی یہ منصوبہ 2020 میں شروع کیا گیا تاہم کوویڈ کی وبا کی وجہ سے یہ متاثر ہوا ۔شنشی زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر سن من کا کہنا ہے کہ زراعت ایک بہت ہی توجہ طلب صنعت ہے اوریہ کہ آن لائن مواصلات نے ہمارے ابتدائی منصوبے میں خلل پیدا کیا۔اس کے باوجود، بہت سے انڈور اور فیلڈ ویڈیو ایکسچینجز کے ذریعے، پاکستانی اور چینی محققین نے کئی ایک کامیابیاں حاصل کیں۔سن من نے کہا کہ پاکستان کی اصل صورتحال کی بنیاد پر، پانی کو برقرار رکھنے کی ٹیکنالوجی قینوا کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر طریقوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں ہم بہت ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی پانی کو ذخیرہ ، محفوظ اور اس میں اضافے کے ساتھ زمین کی نمی کو برقرار رکھتے ہوئے فصل کی کٹائی کے بعد نامیاتی کھاد کو پھیلانا اور پھر مٹی کو گہرا کرنا ہے، تاکہ نامیاتی کھاد اور بھوسے کو ایک ہی وقت میں گہری مٹی میں تبدیل کیا جائے، جس سے بارش کے ذخیرہ کرنے کی کارکردگی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔شاہد اقبال کے مطابق عملی استعمال کے بعد مقامی زمین کی نمی میں 30 ملی میٹر سے 100 ملی میٹر تک اضافہ ہوا، پانی اور نائٹروجن کھاد کے استعمال سے 15 فیصد سے زائد اور پیداوار میں دس فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ تصور حسین کا کہنا ہے کہ گندم اگانے کے مقابلے میں، قینوا کی فی ایکڑ آمدنی دوگنی ہو کر تقریباً 725 ڈالر ہوگئی ہے۔ تصور کا مزید کہنا تھا کہ آمدن میں اضافے کی وجہ سے میں اپنے رقبے کو بڑھانے کے لیے مزید خرچ کروں گا، اور اپنے گزشتہ دو ایکڑ قینوا کی فصل میں ایک ایکڑ کا اضافہ کررہا ہوں۔شاہد اقبال کے مطابق، خانیوال میں پانچ کسان قینوا کاشت کر رہے ہیں، اس سے پہلے پاکستان بھر میں 50 یا اس سے زیادہ کاشتکار قینوا کاشت کررہے تھے ، جن میں مستقبل میں مزید اضافے کی امید ہے۔تعاون کے اس منصوبے نے نہ صرف پاکستانی کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا بلکہ چینی زرعی محققین کے لیے ایک وسیع وژن بھی فراہم کیا ہے۔ سن نے کہا کہ یہ جاننے کے بعد کہ شنشی کو بھی خشک سالی کے مسائل کا سامنا ہے، شاہد اقبال نے مشورہ دیا کہ وہ گندم کی کٹائی کے بعد گوار کی پھلیاں لگا سکتے ہیں۔ سن من نے کہا کہ چین میں اس قسم کی پھلیاں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جب ہماری ٹیم اگلے ماہ پاکستان کا دورہ کرے گی تو ہم مزید تعاون کر سکیں گے چین میں خشک کھیتی کے ایک عام علاقے کے طور پر شنشی میں پاکستان کے ساتھ تعاون کے وسیع امکانات ہیں۔بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تعاون فریم ورک کے تحت، زرعی تعاون دونوں ممالک کے درمیان علمی تبادلےکا بھی ایک پلیٹ فارم ہے۔ ٹیم میں شامل پاکستانی طالب علم ڈاکٹر نور حفیظ تین سال کے دوران اس پروجیکٹ پر کام کرنے کے دوران ایک طالب علم سے ایک تجربہ کار پریکٹیشنر بن گئے ہیں۔لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی کے طالب علم نے کہا کہ انہوں نے مٹی کے مختلف حالات کو درست طریقے سے کھاد ڈالنے کا طریقہ سیکھا، جو آپ کتابوں سے کبھی نہیں سیکھیں گے۔ سن نے کہا کہ ہماری ٹیم میں شامل چار پاکستانی طالب علم بہت محنتی ہیں، گزشتہ کچھ سالوں میں، ان کے تجرباتی طریقوں میں نمایاں بہتری آئی ہے، اوران میں سےایک کوجنوبی صوبے ہائی نان میں ملازمت بھی مل گئی ہے۔حال ہی میں ختم ہونے والے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون میں، دونوں ممالک کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ پریس بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے تسلیم کیا کہ دوطرفہ زرعی تعاون میں بہتر پیش رفت ہوئی ، اور دونوں فریقوں نے تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔نور حفیظ نے کہا کہ ہمارے ملک کے کسانوں کی مدد کے لیے جدید ٹیکنالوجی سیکھنا میرا ہمیشہ سے خواب رہا ہے، اور اب میرا یہ خواب پورا ہو گیا ہے، پاکستانی کسانوں کی خوراک کی پیداوار اور آمدنی بڑھانے میں مدد کے لیے مستقبل میں بھی کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔