کراچی(نمائندہ خصوصی) وفاقی اردو یونیورسٹی میں سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اور ڈاکٹر روبینہ مشتاق کےادوار میں مالی کرپشن ۔اقربا پروری ۔سلیکشن بورڈمیں غیر قانونی بھرتیوں کی وزرات تعلیم پانچ رکنیانکوائری کمیٹی کی سفارشات پر وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت نے گذشتہ روز وفاقی اردو یونیورسٹی، سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کا کیس تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھجوا دیا۔ تفصیلات کے مطابقمطابق وفاقی اردو یونیورسٹی میں سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اور ڈاکٹر روبینہ مشتاق کےادوار میں مالی کرپشن ۔اقربا پروری ۔سلیکشن بورڈمیں غیر قانونی بھرتیوں کی وزرات تعلیم پانچ رکنیانکوائری کمیٹی کی سفارشات پر وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت نے منگل کو وفاقی اردو یونیورسٹی، سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کا کیس تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھجوا دیا۔وزارت تعلیم کی خصوصی ذرائع کے مطابقوفاقی اردو یونیورسٹی میں ‘بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور کرپشن کے شواہد تحقیقاتی کمیٹی کے ہاتھ لگے ہیںوزارت تعلیم کے ایک اہلکار کے مطابق ، "انکوائری رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کے بعد، جس میں اردو یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر مبینہ بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، اس لئے انکوائری رپورٹ کو ایف آئی اے کے حوالے کرکے
تحقیقات شروع کرنے کی درخواست کی ہے”۔وفاقی اردو یونیورسٹی میں کرپشن مالی بےضبطگیوں اور غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کا فیصلہ سیکرٹری تعلیم وسیم اجمل چوہدری کے حکم پر کیا گیا۔ ۔ 24 اکتوبر کو ایف آئی اے کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے: "انکوائری کمیٹی نے مشاہدہ کیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران، خاص طور پر گزشتہ سال کے دوران ہونے والی بڑی تعداد میں انتظامی اور مالی بے ضابطگیاں اور غیر قانونی فیصلے سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اور ڈاکٹر روبینہ مشتاق کے ادوار میں مبینہ انتظامی اور مالی بے ضابطگیوں کی تفصیلی تحقیقات کرے۔ واضح رہے کہ 5 اکتوبر کو، وزارت تعلیم نے سینئر جوائنٹ سیکرٹری عبدالستار کھوکھر کی سربراہی میں پانچ رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی تھی جس کے دیگر اراکین میں ایچ ای سی کے ڈائریکٹر جنرل ناصر شاہ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) کے ریجنل ڈائریکٹر سید علی حیدر کاظمی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی فیکلٹی آف سوشل سائنس کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اور ایچ ای سی کی ڈائریکٹر فنانس ثمینہ درانی شامل تھے۔ کمیٹی کو اردو یونیورسٹی کے معاملات میں انتظامی اور مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا۔ انکوائری کمیٹی نے دیگر الزامات کے علاوہ اس بات کی نشاندہی کی کہ قائم مقام وی سی ڈاکٹر محمد ضیاءالدین نے ستمبر 2022 میں ایک غیر قانونی سنڈیکیٹ میٹنگ کی۔ کمیٹی نے کہا کہ یونیورسٹی کی سینیٹ کی ہدایت کے مطابق، "ایک قائم مقام وائس چانسلر کوئی تقرری، برطرفی، ترقی نہیں کرے گا”ذرائع نےمزید انکشاف کیا کی ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے، 21 ستمبر 2023 کو غیر مطلع شدہ/غیر قانونی سنڈیکیٹ میٹنگ کے ذریعے اہم ترقیاں، اپ گریڈیشن اور تقرریاں کی کراوائیں” انکوائری کمیٹی نے سفارش کی کہ 21 ستمبر کو غیر قانونی طور پر ہونے والے مذکورہ سنڈیکیٹ کے اجلاس میں کیے گئے تمام فیصلوں کو فوری طور پر کالعدم قرار دے کر اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ذرائع کے مطابق مئی 2021 اور اگست 2021 کے درمیان ہونے والے سلیکشن بورڈ کے مختلف اجلاسوں میں کیے گئے فیصلے، جن میں 1,100 درخواست دہندگان میں سے 235 امیدواروں کو منتخب کیا گیا تھا، کے تمامفیصلوں کو بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے یا اسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ "وزارت تعلیم کے ذرائع کے مطابق سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے دور میں مالی بےضبطگیوں اورکرپشن عروج پر پہنچ گئی تھی واضح رہے کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین یونیورسٹی کو مافیا کے حوالے کر دی تھی انکے ذاتی "رتن”ترقیوں اورتقرریوں کے کروڑوں روپے ڈکار گیے ۔ذرائع کے مطابق سابق انتظامیہ کے ساتھ "زیرو ٹالرونس” کی پالیسی مطابق کارروائی کی جائے گی