کراچی (تجزیہ:آغاخالد)نواز شریف کی وطن واپسی کے ساتھ ہی ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیاہے کچھ سیاسی تجزیہ نگار دعویٰ کرہے ہیں وہ مستقبل کے وزیر اعظم ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو یہ کسی معجزے سے کم نہ ہوگا کیونکہ نواز شریف کی ضد میں ہی ہماری طاقت ور اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو سیاسی اکھاڑے کا کامیاب پہلوان بنایاتھا اور آج صرف ساڑھے 4 برس بعد ہی نواز اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے بقول انکے حریفوں کے اسٹبلشمنٹ کے کاندھوں پر سواری کرتے ہوے واپس لوٹے ہیں تو کارخانہ قدرت کا کمال دیکھیں ان کے سب سے زیادہ مضبوط حریف عمران جیل میں ہیں اور نواز شریف سیاسی میدان کے بادشاہ گر بنے ہوے ہیں اس ساری کامیابی کے باوجود اسٹبلشمنٹ کی قربت کادعوی کرنے والے تجزیہ نگاروں کی بڑی تعداد کی معنی خیز مسکراہٹ ان کے چوتھی بار وزیر اعطم بننے کے دعووں پر شکوک کے سائے ڈال رہی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز کی سرکاری پروٹوکول میں واپسی طاقت وروں کی مجبوری ہے جو وہ بغض معاویہ میں انجام دے رہے ہیں اسی لیے سیاست پر نظر رکھنے والے ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ نواز شریف کو استعمال کرکے وہ شہباز کو ہی وزیر اعظم بنائیں گے اور اگر باپ بیٹی کے ضد کے آگے مجبوریوں نے ہتھیار ڈالے بھی تو محبت بھرے اس پالنے کی عمرچند ماہ ہی بمشکل ہوگی اور پھر کسی نہ کسی اسکینڈل کو جواز بناکر اقتدار کا ہما چوٹے میاں جی کے سر سجے گا تاہم منصوبہ عمران کی ناکامی کی بادشاہ گروں کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے اور وہ موجودہ اقدامات کو کاندھا دے کر اپنی دائمی قوت کی بحالی کے لئے سرگرداں ہیں یہی قوتیں صرف 5 برس قبل اسی طرح کے کامیاب جلسے اور عوامی قوت کے مظاہروں کی خاطر اسی طرح ایڑی چوٹی کازور کسی اور کے لئے لگاتی دیکھی جارہی تھیں جیسی آج نواز لیگ کے لاہور جلسے کو فیصلہ کن بنانے کے لئے وسائل کا بہائو سب نے دیکھا تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ مینار پاکستان کا آج کاجلسہ عرصہ دراز تک یاد رکھا جائے گا اور یہ کسی طرح بھی لاہور کے بڑے جلسوں سے کم نہ تھا مگر اس کی کامیابی میں آٹے میں نمک کے برابر اگر اسٹبلشمنٹ کی معاونت تھی تو ن لیگ کے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کا بھی اس میں بڑادخل تھا اور اگر اسی طرح ن لیگ نے اپنے کارکنوں کو فعال رکھا اور عوام سے رابطہ برقرار رہاتو کوئی وجہ نہیں کہ وہ انتخابات میں پنجاب سے فیصلہ کن نتائج حاصل نہ کرسکے مگر اہم بات پولنگ کے دن اپنے ووٹرز کو فعال کرکے بیلٹ بکس تک لانا ہوگا تحریک عدم اعتماد کے بعد ن لیگ نے بڑے اچھے پتے کھیلے ہیں مگراب تک کی کامیابیوں کے باوجود وہ ماضی کے اسٹبلشمنٹ کے مضبوط گھوڑے کو دوڑ سے باہر رکھ کر جو بھی کامیابی حاصل کرلیں اسے تاریخ میں اعتماد کی سند حاصل نہ ہوگی دورسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ن لیگ 1992 کے بعد سے کبھی بھی طاقت وروں کی پسندیدہ نہیں رہی یہ سجائی گئی سیج انہیں راس مشکل ہی آئے پھربھی شوق حکمرانی کابھوت سر چڑھ کر بولے گا تو ثمر چھوٹے میاں کو ہی حاصل ہوگا یہ باپ بیٹی پھر یاس و زیست کا شکار ہوں گے-