لکھنا تو مجھے اسرائیل کے فوجی اخراجات پر تھا ۔ مگر اس سے پہلے ایک اور اہم موضوع موجودہ صورتحال پر گزارشات ۔ فلسطین کی تازہ صورتحال پر اس وقت پورا عالم اسلام ایک عالم گریہ میں ہے ۔ اسرائیل انسانیت سوز کارروائی میں روز ایک نئے باب کا اضافہ کرتا ہے کہ چنگیز خان کی روح بھی شرما جائے۔ اس پر اسرائیل سے زیادہ اس کے سرپرستوں کی ڈھٹائی نے دنیا کو حیران کردیا ہے ۔
دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ماتم کا سماں ہے ۔ ایسے میں سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ چنگیز خان ، قرامطہ وغیرہ کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ماضی بعید کی باتیں ہیں ۔ ماضی قریب میں ہی اسرائیل نے صابرہ و شتیلہ میں جو کچھ کیا تھا ، وہ بھی کچھ کم نہیں تھا ۔ روز اسرائیل فلسطینی نوجوانوں ، بچوں اور خواتین کے ساتھ انسانیت سوز تشدد کرکے انہیں مستقل طور پر اپاہج کردیتا ہے ، غیر معینہ مدت تک پابند سلاسل رکھتا ہے اور اکثر شہید بھی کردیتا ہے ۔ وہ بھی کسی طرح کم نہیں ہے اور پھر سب سے بڑھ کر القدس پر قبضہ ، جس پر سب سے زیادہ ماتم کرنا بنتا ہے
اسرائیل کے علاوہ بوسنیا میں مسلمانوں کی پورے یورپ کی منشاء و رضامندی سے نسل کشی ، سربرانیکا جہاں پر سارے مسلمان نوجوانوں اور مردوں کو قتل کردیا گیا ، جہاں پر دس سے لے کر ساٹھ سال کی کوئی خاتون ایسی نہیں بچی تھیں جس کی آبرو ریزی نہ کی گئی ہو ۔ میانمار کے اراکانی مسلمان جن پر پڑوسی ملک بنگلا دیش نے بھی زمین تنگ کی ہوئی ہے ۔ جب یہ اراکانی مسلمان تحفظ کے لیے گھریلو ساختہ کشتیوں میں اراکان سے فرار ہورہے تھے تو تھائی نیوی نے ان کا باقاعدہ شکار کیا ۔ مردوں کو سمندر میں پھینک کر قتل کردیا گیا اور خواتین و بچوں کو بردہ فروشوں کے ہاتھ فروخت کردیا گیا ۔ جو لوگ بنگلا دیش پہنچنے میں کامیاب ہوئے ، وہاں پر بھی بردہ فروش پہنچ گئے اور خواتین و بچے روز اغوا ہونے لگے ۔ بنگلا دیشی حکومت نے انہیں ایک ایسے جزیرے پر بھیج دیا جہاں پر رہنے کا کوئی انتظام ہی نہیں تھا اور یوں یہ مسلسل بارشوں کا سامنا کرتے ہوئے بیماریوں کا شکار ہونے لگے ۔مقبوضہ کشمیر میں مسلمان روز ہی بھارتی فوج کی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہیں جس میں خواتین کی آبرو ریزی اور نوجوانوں کا قتل بھی شامل ہے ۔ سنکیانگ میں تقریبا سارے ہی مرد و خواتین کو دوا کے ذریعے بانجھ بنا دیا گیا ہے ۔ وہاں کے مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جہاں انہیں شراب پینے ، سور کھانےاور حیا سوز حرکات پر مجبور کیا جاتا ہے ۔
میں ان علاقوں کا تذکرہ نہیں کر رہا جہاں پر مغربی قوتوں کےایجنٹ مسلط ہیں ۔ جیسا کہ افغانستان میں امریکا کے آتے ہی جو قتل عام ہوا اور طالبان کو صحرا میں لے جا کر بھوک پیاس سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ، عراق اور لیبیا میں جو کچھ ہوا ، شام میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یمن میں یزدیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ۔ یہ سب بھی فلسطین میں ہونے والے مظالم سے کچھ کم نہیں ہے ۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں فلسطین کے سانحے پر آواز بلند نہیں کرنی چاہیے ۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ تو یہ پہلا سانحہ ہے اور اگر ہم اسی طرح سوئے رہے تو یہ آخری سانحہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اب تو ان کی فریکوئنسی میں روز اضافہ ہی ہوگا ۔ کبھی فرانس میں حجاب اور پھر عبایا پہننے پر پابندی کی صورت میں تو کبھی بھارتی کرناٹکا میں مسلم بچیوں کو اسلامی تشخص ختم کرنے کا حکم دینے کی صورت میں ۔ بھارت میں ہی گائے کے تقدس کے نام پر کس طرح آئے دن مسلمانوں کو شدید تشدد کرکے شہید کردیا جاتا ہے ۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے بعد اب بھارت میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا جائے گا ۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ جو ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم احتجاج کرتے ہیں ۔ زوردار نعرے لگاتے ہیں ، اسرائیلی و امریکی پرچم جلاتے ہیں ۔ زیادہ جذباتی ہوں تو اپنے ہی بھائیوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور گھر پہنچ کر سکون کی نیند سوجاتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا ۔ جو لوگ عملی کام پر یقین رکھتے ہیں وہ انفاق کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بعض اوقات استطاعت سے بھی بڑھ کر کسی ایسی تنظیم کو مالی مدد مہیا کرتے ہیں ، جس کے بارے میں انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمارے پریشان بھائیوں کو کھانے پینے کے اسباب مہیا کرے گی اور بیماروں کے علاج کے لیے عارضی اسپتال کی سہولت مہیا کرے گی ۔ ایسی صورت میں زیادہ طمانیت محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی ۔
پھر کچھ دن کے بعد کوئی ایک اور سانحہ ہوتا ہے اور ہم دوبارہ سے یہی کچھ کرتے ہیں ۔ سوال کیا جائے کہ بھائی اس سے کیا ہوگا تو اس کے جواب میں سوال ہی آتا ہے کہ ہم اور کیا کریں ۔ ہم حکومت تو نہیں ہیں کہ اس سے بڑھ کر کریں ۔ پھر الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ یہ ساری حکومتیں غلام ہیں ، ایجنٹ ہیں ۔ اگر فلاں شخص حکمراں ہوتا تو آج یہ کچھ نہیں ہوتا ۔ سارے مسلم ممالک کے حکمراں یہودیوں کے ایجنٹ ہیں ۔ ہماری فوج بھی کسی کام کی نہیں ۔ ایٹم بم کا کیا کرنا ہے ، اسے کباڑ میں بیچ دو ۔ یہ سب کہہ کر ہم مزید مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے جابر حکمراں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا فریضہ بھی ادا کردیا ۔
یہ اہم ترین سوال ہے کہ ہمیں اپنی سطح پر کیا کرنا چاہیے کہ ہم دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روک سکیں اور ان کے لیے تحفظ کی باڑھ ثابت ہوں ۔ اس اہم ترین سوال پر گفتگو کرتے ہیں آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔