بیجنگ (شِںہوا) چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ بین الاقوامی تعاون میں تیزی سے اضافہ ہوا اور گزشتہ 10 برس میں نتیجہ خیز نتائج برآمد ہوئے ۔بیجنگ میں تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ یہ تعاون براعظم یوریشین سے افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیل چکا ہے اور 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں نے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔چینی صدر نے کہا کہ فورم کے تین سیشن منعقد ہوچکے ہیں اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت 20 سے زائد خصوصی کثیرالجہتی تعاون کے پلیٹ فارم قائم کئے گئے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون "خاکہ تیار کرنے” سے "عملی شکل اختیار کرنے” تک آگے بڑھا اور نقشے کو حقیقی منصوبوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ بڑی تعداد میں کلیدی منصوبے اور "چھوٹے مگر اسمارٹ ” پروگرام شروع کئے گئے جو عوام پر مبنی تھے۔انہوں نے اپنی تقریر میں اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے رہنما اصولوں پر روشنی ڈالی۔چینی صدر نے کہا کہ اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون میں اہم رہنما اصول طے کئے گئے ہیں جس میں ملکر منصوبہ بندی، ایک ساتھ تعمیر اور باہمی فائدے کا اصول، کھلا پن، سبز و صاف تعاون کا فلسفہ، اعلیٰ معیار اور عوام پر مبنی پائیدار تعاون آگے بڑھانے کا مقصد کارفرما ہے۔انہوں نے کہا کہ بی آرآئی کے تحت تعمیر کردہ رابطوں کے عالمی نیٹ ورک نے زمین، سمندر، فلک اور انٹرنیٹ کا احاطہ کرتے ہوئے نئے دور میں ہزاروں برس پرانی شاہراہ ریشم میں نئی روح پھونک دی ہے۔چینی صدر شی نے کہا کہ جب نوول کرونا وائرس آیا تو بیلٹ اینڈ روڈ زندگی بچانے والی شاہراہ بن گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ چین نے دوسرے ممالک کو 10 ارب سے زائد ماسک اور ویکسین کی 2.3 ارب خوراک فراہم کیں اور 20 سے زائد ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر ویکسین تیار کی۔ جو انسداد نوول کرونا وائرس میں بیلٹ اینڈ روڈ اینشی ایٹو شراکت داروں کی کوششوں میں خصوصی حصہ تھا۔ جب چین وبائی مرض سے بری طرح متاثر ہوا تو اسے 70 سے زائد ممالک سے قابل قدر مدد بھی ملی۔چینی صدرشی نے کہاکہ بی آر آئی سب کے لیے ترقی میں انسانیت کی مشترکہ کوشش کی نمائندگی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون تہذیبوں، ثقافتوں، سماجی نظاموں اور ترقی کے مراحل کے درمیان اختلافات سے بالاتر ہے۔ اس نے ممالک کے درمیان تبادلوں کا ایک نیا راستہ کھولا اور بین الاقوامی تعاون میں ایک نیا لائحہ عمل فراہم کیا۔