کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)اشتہاری بورڈ کی صنعت برباد،کراچی میں بیک وقت 36 ادارے خلاف قانون کام کر رہے ہیں جو غیر قانونی آمدنی کے ساتھ رشوت کمیشن کک بیک کھلے عام وصول کررہے ہیں۔اس حوالے سے 10سال کے دوران کوئی قانون نہ بن سکا تاکہ رشوت باآسانی وصول کی جائے،اس لیئے ایک منصوبہ کے تحت بلدیہ عظمی کراچی کو اربوں روپے سے محروم کر کے اپنی جیبیں بھری جارہی ہیں۔سپریم کورٹ نے سرکاری اراضی پر اشتہاری بورڈ، دیوہیکل بورڈ لگانے پرمکمل پابندی عائد کررکھی ہے تاہم بعض ادارے غیر قانونی سڑکوں، فٹ پاتھوں،گرین بیلٹ، چوکوں، چورنگیوں،مڈلائنوں، رفلاہی پلاٹوں کے ساتھ سرکاری اراضی پر غیر قانونی اشتہاری بورڈ کھلے عام لگارہے ہیں کیونکہ وہ متعلقہ اداروں کو نذرانے دے چکے ہیں اس لیئے اب انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔کنٹونمنٹ بورڈز سمیت کراچی کے مختلف علاقوں، پیڈسٹل برجز، انڈر پاسز، فلائی اوور،الیکڑک پول تک پر اشتہارات کی بھر مار ہے۔ متعدد ادارے قانون کے برخلاف بل بورڈز کے اجازت نامہ بھی جاری کررہے ہیں۔ اس بارے میں کمشنر کراچی نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ضلع جنوبی، ضلع شرقی، ضلع غربی، ضلع وسطی، ضلع ملیر، ضلع کورنگی اور ضلع کیماڑی کے ڈپٹی کمشنروں کو سپریم کورٹ کی ہدایت نامے پر عملدآمد کی ہدایت کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ قانون کے برخلاف لگنے والے اشتہاری بورڈز فورا” نکالے جائیں۔ کمشنر کراچی کا جاری کردہ حکمنامہ NO.CK/AC/(REV)/807/2023 بتاریخ 29 ستمبر 2023ء میں واضح کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے کیس نمبر D-2006/2022 پر فوری عملدآمد کرتے ہوئے تین دن میں رپورٹ ارسال کریں،لیکن 20 روز گزر جانے کے باوجود کراچی کی انتظامیہ غیر قانونی اشتہاری بورڈ کو ہٹانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ کمشنر کراچی نے یہ احکامات میونسپل کمشنر بلدیہ عظمی کراچی کے ساتھ تمام اضلاع کے بلدیاتی افسران کو بھی خطوط لکھے ہیں، تاہم عدالتی حکم کے باوجود کراچی میں کئی مقامات پر اشتہاری بورڈ آویزاں ہیں۔ اشتہاری بورڈ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کراچی میں اشتہاری بورڈ کا قانون نہ بن سکا، اشتہاری بورڈز کا کاروبار جرائم پیشہ افسران کے نگرانی میں چل رہا ہے۔یہ سسٹم رشوت کمیشن کک بیک سرکاری چالان سے چھ سو فیصد وصول کرنے سے اس صنعت سے وابستہ افراد کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ پہلے بلدیہ عظمی کراچی واحد ادارہ تھا لیکن 2011ء میں لوکل ٹیکس کے اختیارات ضلعی بلدیات کو دے دیا گیا تھا۔ اس بندر بانٹ کے بعد ٹیکس سرکاری خزانے میں جانے کے بجائے افسران کی جیبوں میں جارہا ہے۔2013ء میں لوکل ٹیکس ایک بار پھر بلدیہ عظمی کراچی کو مل گیا ہے لیکن بعض شعبے جات ضلع بلدیات کو دیدیا گیا ہے جن میں شاپ بورڈز کا اختیار بھی شامل ہے۔ 2013ء سے آج تک اشتہاری بورڈ کا قانون نہیں بن سکا، لولا لنگرا نظام بھی چل رہا ہے۔بلدیہ عظمی کراچی کے میئر مرتضی وہاب جب ایڈمنسٹریٹر تھے تو انہوں نے اس اشتہاری بورڈ کے تمام تر اختیارات غیر قانونی طور پر اپنے لاڈلے افسر اخترعلی شیخ میونسپل کمشنر ضلع جنوبی کو تقویض کردیا تھا اس وجہ سے سرکاری آمدنی نہ ہوسکی۔ اس بارے میں اخترعلی شیخ کا کہنا ہے کہ وہ رشوت کمیشن کے ریٹ کم نہیں کرسکتے۔ یہ رقم مرتضی وہاب سمیت دیگر سیاسی افراد کو ایک سسٹم کے تحت جاتی ہے۔میڈیا لنک کے مالک شہزاد حسین کا کہنا ہے کہ پبلک پراپرٹی، شاپ بورڈ سائن کے ساتھ بل بوردز میں کم از کم فی کس 20 سے 30 لاکھ روپے رشوت لی جاتی ہے جبکہ بڑے بورڈز میں ماہانہ پانچ سے سات کروڑ روپے رشوت کھلے عام وصول کی جارہی ہے۔ اخترعلی شیخ کو رشوت نہ دینے والے کی کمپنی بیلک لسٹ کردی جاتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مرتضی وہاب کی آشیر باد سے وہ اپنے عہدے پر براجمان ہے جبکہ نیب، اینٹی کرپشن اور دیگر تحقیقاتی اداروں میں اتنی جرات کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لیں ،نہ وہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں کیونکہ وہ میئر سمیت تمام اداروں کو حصہ بقدر جثہ انتہائی ایمانداری سے مال پہنچا رہے ہیں۔کراچی میں KMC اور DMC کے ساتھ اب اشتہاری بورڈ پر غیر قانونی طور پر 25 ٹاون نے قبضہ جمالیا ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی نے لوکل ٹیکس کا الگ ڈپارٹمنٹ کرنے کے بجائے میونسپل سروسز ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے۔اس کے سینئر ڈائریکٹر تسلیم احمد ہیں ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر نیا قانون بنارہے ہیں۔ اس بارے میں مشاوات سے تجاویز تیار کی جائیں گی۔اس ضمن میں ہم کراچی کے تمام ٹاون میونسپل آفیسرز کو خطوط لکھ رہے ہیں کہ لوکل ٹیکس کے اجازت نامے جاری نہ کریں ورنہ ان کے خلاف کاروائی سے مالی اور انتظامی نقصان ہوسکتا ہے،انہوں نے بتایا کہ کراچی میں پیڈسٹل برجز، انڈر پاسز، فلائی اوورکی تعداد 176ہے،جن کی اجازت نامے کے بجائے نیلامی کے ذریعہ اشتہاری بورڈ لگانے کا اختیار دیا جائے گا۔ یہ ہر دو سال بعد نیلام ہوں گئے۔الیکڑک پول سائن بھی نیلامی کے ذریعے ضلع یا ٹاون کی سطح پر دی جائے گی۔واضح رہے کہ لوکل ٹیکس میں بڑے پیمانے پر آمدنی سے بلدیہ عظمی کراچی استفادہ نہیں کر رہی ہے۔ ضلعی بلدیات میں بھی صرف لوٹ مار کی جارہی ہے۔اب ٹاون کے چیئرمینوں نے بھی اشتہاری بورڈ کے اجازت نامہ جاری کر رہے ہیں۔ 6 کنٹونمنٹ بورڈ(فیصل، کلفٹن، ملیر، کورنگی،منوڑا، اور صدر) کے علاوہ سول ایوی ایشن اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی، پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان ریلوے سمیت دیگر ادارے بھی اشتہاری بورڈ لگانے کا کاروبار کررہے ہیں۔کراچی دنیا کا منفرد میگا سٹی ہے جہاں بیک وقت کئی ادارے ایک جیسے کام کررہے ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے کوئی مشاورات، باہمی تعاون موجود نہیں ہے۔یہ ادارے کراچی کی ترقی میں بھی کوئی رول ادا نہیں کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام اداروں سے جواب طلب کیا تھا۔ اشتہاری بورڈ کی یکساں قانون سازی بھی نہ ہوسکی۔ کراچی واحد یتیم شہر ہے جہاں کسی قانون کے بغیر اشتہاری بورڈ کے کاروبار کے لئے کئی اداروں سے اجازت نامے حاصل کیئے جاتے ہیں۔ اربوں کھربوں روپے مالیت کا کاروبار چند لٹیروں کے رحم و کرم پر پورا نظام چل رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ لوکل ٹیکس سے سالانہ آمدنی دو ارب سے زائد ہے۔ اس کے اختیارات تقسیم ہونے سے بندر بانٹ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ علاوہ ازیں بلدیہ جنوبی کے ایک سینئر آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اختر شیخ جرائم کا بادشاہ ہے اور اس کی نگرانی میں سرکاری وسائل کی لوٹ مار عروج پر ہے۔اختر شیخ کے سیاہ کارناموں پر محکمہ بلدیات سندھ کو نوٹس لینا چاہیے ورنہ حکومت کی رٹ ختم ہو جائے گی اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار کی نئی نئی داستانیں بنتی رہیں گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اختر شیخ جعلی خطوط اور عدالتی حکمنامہ بنانے کا ماہر ہے۔ اپنے رشتہ داروں کی سرکاری ملازمت میں تقرری بھی جعل سازی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا بیٹا ندیم شیخ کی جعلی کاغذات پر تقرری اور تعیناتی کی گئی ہے۔ محکمہ بلدیات سندھ ندیم شیخ کی ملازمت کا خط جعلی قرار دے چکا ہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ملازم نہ ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ ایک جعلی حکمنامے پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے کالعدم صدر ٹاون(موجودہ بلدیہ جنوبی) میں تقرر کیا گیا تھا جہاں ندیم شیخ نے گریڈ 18 میں ترقی کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر پلاننگ کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ندیم شیخ سابق سیکریٹری بلدیات سندھ روشن شیخ کے بہنوئی بھی ہیں۔ سابق سیکریٹری سندھ نجم شاہ سابق سیکریٹری بلدیات روشن علی شیخ کے بہنوئی،میونسپل کمشنر بلدیہ جنوبی اختر علی شیخ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے شدید دباؤ میں اور وہ یہ پنڈورا بکس نہیں کھولنا چاہتے ہیں۔ روشن علی شیخ اور اختر علی شیخ کے رشتہ داروں کی بھی تقرری جعلی اور بھوگس آڈر پر کی گئی ہیں۔