کراچی(رپورٹ میاں طارق جاوید ) وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے غیر قانونی اقدامات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے دو دن میں اپنی تحقیقات مکمل کر لیں ۔ وفاقی وزارت تعلیم کے سینیئر جوائنٹ سیکرٹری عبدالستار کھوکھر کی سربراہی میں یہ کمیٹی نگراں وفاقی وزیر تعلیم مدد علی سندھی نے تشکیل دی تھی۔ نگران وفاقی وزیر تعلیم کو متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں کہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اپنے متعین کردہ اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے غیر قانونی ترقیاں اور تقریاں کر رہے ہیں اس کے علاوہ غیر قانونی سنڈیکیٹ کے اجلاس کے انعقاد کی بھی اطلاع موصول ہوئی۔ ان شکایات پر نگران وزیر تعلیم مدد علی سندھی نے یہ پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی نے گزشتہ ایک سال میں تعینات رہنے والے سابق ٹریژرار، رجسٹرار اور اراکین سینڈیکیٹ سے ملاقاتیں کر کے اپنی تحقیقات کو مکمل کیا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمیٹی نے سابقہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اور سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر مہ جبین کو بھی اس کمیٹی سے ملاقات کے لیے مدعو کیا لیکن وہ دونوں حسب سابق تحقیقات میں شامل ہو کر اپنے غیر قانونی اقدامات کا دفاع کرنے سے رفو چکر ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اور رجسٹرار مہ جبین تحقیقات سے فرار ہو گئے ۔ذرائع کے مطابق کمیٹی تحقیقات کے دوران” 14″ زمہ داروں کے بیانات ریکارڈ کر لیئے ہیں
یونیورسٹی ذرائع کے مطابق اطلاعات کے مطابق کمیٹی کو مصدقہ شواہد مل گئے ہیں جن کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے من پسند 100 سے زائد غیر تدریسی ملازمین کو خلاف ضابطہ ترقیاں دیں اور 30 کے قریب غیر تدریسی ملازمین کو مستقل ملازمتوں سے نواز دیا۔ ان نوازشات یہ پس پشت کوئی میرٹ کا معیار سامنے نہیں رکھا گیا۔ چند متعلقہ ملازمین سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنا نام خبر میں ظاہر کرنے کی شرط پر یہ بتایا کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے فرنٹ مین "عدنان اختر” نے تمام غیر تدریسی ملازمین سے وقتا فوقتا رابطہ کیا اور ان سے ترقیوں اور مستقلی کے عوض بھاری رشوت طلب کی۔ جو ملازمین یہ رشوت ادا کر سکے انہیں ان مراعات سے نواز دیا گیا اور جن ملازمین نے یہ رشوت ادا نہیں کی وہ ان نوازشات سے محروم رہ گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ پیسے عدنان اختر نے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے نام پر طلب کیے۔ کمیٹی کے ایک اہم رکن میں بتایا ہے کہ تحقیقات کے دوران سنگین نوعیت کے غیر قانونی اقدامات کے ساتھ ساتھ کرپشن کے شواہد بھی موصول ہوئے ہیں اور امکان پایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین، عدنان اختر، آصف رفیق اور اہم عہدوں پر براجمان ان غیر قانونی اقدامات میں ملوث افراد کا معاملہ وفاقی تحقیقاتی اداروں کو ریفر کر دیا جائے گا تاکہ ذمہ داران کو ان کے کیے کی سزا مل سکے۔واضح رہے کہ www.tariqjaveed.com میں وفاقی اردو یونیورسٹی کی کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے ثبوت شائع کر نے پر نگراں وزیر تعلیم مددعلی سندھی کی ہدایت پر وفاقی وزارت تعلیم نے وفاقی اردو یونیورسٹی میں کرپشن کی تحقیقات کی خصوصی تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی واضح رہے وفاقی اردو یونیورسٹی قیام آج تک کرپش گڑھ بن چکی ہے