طوفان الاقصیٰ پر گفتگو سے قبل قبل احباب کی جانب سے پوچھے گئے چند سوالوں کے جواب ۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ جب غزہ کی ناکہ بندی ہے ۔ خشکی ہو کہ سمندر ، ہر طرف اسرائیل کی تیز نگاہیں ہیں کہ اس کی مرضی و اجازت کے بغیر مکھی بھی اڑ کر پار نہیں جاسکتی تو پھر یہ بھاری بھرکم اسلحہ کیسے پہنچ جاتا ہے ۔ اسلحہ ہو یا دیگر اشیاء ، ان کی بڑی مقدار میں ترسیل کے لیے ٹرکوں کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ کندھے پر رکھ کر نہیں پہنچائے جاسکتے ۔
ضروری اشیاء کی غزہ میں ترسیل کے لیے مصر میں موجود صحرائے سینا کا راستا اختیار کیا جاتا ہے ۔ یہاں سے سرنگیں غزہ تک بنائی گئی ہیں ، جہاں سے یہ اشیاء اندرون فلسطین پہنچتی ہیں ۔ چونکہ یہ علاقہ حماس کے زیر انتظام ہے ، اس لیے ان اشیاء کی فلسطین میں ترسیل پر لگایا گیا ٹیکس ہی حماس کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان سرنگوں کے محل وقوع سے اسرائیل یا مصر لاعلم ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔ اسرائیل نےآج سے پانچ برس قبل اپنی ایک ٹیکنالوجی دنیا کے سامنے پیش کی تھی جو اس نے غزہ میں استعمال بھی کی ۔ اس ٹیکنالوجی کے تحت کسی بھی گھر کے باہر سے اندر کے کسی بھی کمرے کے اندر کی پوری عکسبندی کی جاسکتی ہے ۔ یہی صورتحال زیر زمین تہہ خانوں کی بھی ہے ۔ جب یہ ٹیکنالوجی پانچ برس قبل موجود تھی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب اس میں کتنی ترقی ہوگئی ہوگی اور ڈرونز کے ذریعے ایک ایک سرنگ میں ہونے والی تمام کارروائی دیکھی جاسکتی ہے اور انہیں تباہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔
ان سرنگوں کے ذریعے بھاری بھرکم کنسائنمنٹ کی منتقلی تقریبا ناممکن ہے ۔ دوسرا راستہ سمندر کا ہے ۔ یہاں پر سوڈان سے سامان کشتیوں پر لایا جاتا ہے ۔ مگر یہ بھی بہت risky ہے ۔ اسلحہ کے لیے تیسرا راستہ فضائی ہے ۔ عمومی طور پر دنیا بھر میں اسمگلر یہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کوئی بھی کارگو طیارہ مطلوبہ علاقے پر سے نچلی پرواز کرتے ہوئے کارگو کو پیراشوٹ کے ذریعے پھینکتا ہوا آگے نکل جاتا ہے ۔جنوبی بھارت میں بھی علیحدگی پسندوں تک ہتھیار پہنچانے کے لیے یہی راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ حماس نے یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ سے حاصل کیا اور یہ نہ تو یوکرین سے ان تک پہنچایا گیا اور نہ ہی افغانستان سے ان تک پہنچا ۔ جناب ایک بات سمجھیں کہ اس قسم کا اسلحہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کھلے عام نہیں ملتا ۔ یہ رولز رائس گاڑی کی طرح ہے کہ پہلے آپ آرڈر دیں گے ، پھر یہ آپ کے لیے تیار ہو کر آپ کو فراہم کیا جائے گا ۔ اسی لیے آرڈر دینے کے بعد فراہمی کا دورانیہ بعض اوقات پانچ برس تک بھی ہوتا ہے ۔ جس کو فراہم کیا جاتا ہے ، اس کے لیے ایک خاص سیریل نمبر ہوتا ہے جس میں پورا شجرہ پنہاں ہوتا ہے ۔ اسی لیے سیریل نمبر سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کس کو دیا گیا تھا اور کب دیا گیا تھا ۔
اسلحے کے بلیک مارکیٹ میں پہنچنے کے دو ذرائع ہوتے ہیں کہ کسی ملک میں جاری جنگ کے نام پر اسے اس ملک کے نام پر تیار کیا جائے اور پھر یہ راستے میں ہی ادھر ادھر کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ دشمن نے اس پر قبضہ کرلیا ۔ اس اسمگلنگ میں بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس ملک میں یہ اسلحہ پہنچا ہے ، وہی ملک اسے کسی دوسرے ملک کے حوالے کردے ۔ یہ طریقہ کار افغانستان پر روسی حملے کے دوران استعمال کیا گیا تھا ۔ افغانستان میں لڑنے کے لیے مجاہدین کو اسلحے کی ضرورت تھی اور امریکا و یورپ اپنا اسلحہ دینا نہیں چاہ رہے تھے کہ وہ اسے افغانستان کی مقامی مزاحمت دکھانا چاہ رہے تھے ۔ اگر ان کا سلحہ پکڑا جاتا تو وہ پس منظر سے پیش منظر پر آ جاتے ۔ اس کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ مصر کو روس نے کلاشنکوفیں فراہم کی تھیں ۔ وہ کلاشنکوفیں امریکا نے مصر سے لے کر پاکستان کے حوالے کیں جو مجاہد تنظیموں کے پاس پہنچیں اور اب روز میڈیا میں خبریں آنے لگیں کہ روسی فوج فلاں محاذ پر پسپا اور بھاری اسلحہ مجاہدین کے ہاتھ لگا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک مورچے سے پانچ کلاشنکوفیں اور چند راونڈ ہاتھ آئیں گے ۔ یہ تو لڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں ۔ اس کے لیے بھاری رسد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلحہ انتہائی مہنگی جنس ہے ۔ ممالک اسے خریدنے پر قرضوں تلے دب جاتے ہیں ۔ پھر بلیک مارکیٹ میں ان کے دام کئی گنا مزید بڑھ جاتے ہیں تو یہ حماس کہاں سے اس کی قیمت ادا کرسکتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایران نے ادائیگی کی تو اس کے پاس تو خود زرمبادلہ کا بحران ہے ۔ مندرجہ بالا گفتگو سے ہم دو نتیجے نکال سکتے ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ اسلحے کی جو بھی بھاری کنسائنمنٹ غزہ تک پہنچائی جارہی تھی ، وہ یا تو سمندری راستے سے پہنچی یا فضاء سے ۔ دونوں صورتوں میں اسرائیلی ملی بھگت شامل تھی کہ ڈلیوری کے وقت وہ پراسرار طور پر غائب تھے ۔ اور اس اسلحے کی ادائیگی وہی لوگ یا طاقت کر رہی تھی ، جنہیں یہاں پر دلچسپی ہے ۔ کسی بھی ملیشیا کی ضرورت وہی پورا کرتا ہے جسے اس ملیشیا سے کام لینا درکار ہوتا ہے ۔ طالبان اس وقت تک پاکستان کی آنکھ کا تارا تھے جب تک پاکستان کے لیے کام کے تھے ۔ اس کے بعد وہی دہشت گرد ٹھیرے۔ ان کا باقاعدہ شکار کیا گیا ، انہیں پکڑ پکڑ کر گوانتا ناموبے اس طرح پہنچایا گیا۔ اور اس طرح امریکا کے حوالے کیا گیا کہ حوالگی کے وقت وہ الف برہنہ تھے ۔
ایک بات اور دیکھیں کہ پوری دنیا میں مطلوبہ اسلحہ تو جنگجووں تک بہ آسانی اور بہ افراط پہنچ جاتا ہے مگر دیگر اشیاء نہیں پہنچ پاتیں ۔ آپ کو افریقا میں ایک جنگجو نظر آئے گا کہ وہ جدید ترین رائفل لیے کھڑا ہے ، اس کے پاس ایمونیشن بھی خوب ہے مگر پاوں میں چپل نہیں ہے اور وہ منرل واٹر کی بوتل کو پچکا کر اس پر رسی باندھ کر بطور چپل استعمال کررہا ہے ۔ اسی طرح آپ کو بلوچستان، اندرون سندھ اور خیبر پختون خواہ و افغانستان میں جنگجووں کے پاس ہر طرح کا اسلحہ نظر آئے گا مگر ان کی مفلوک الحالی بھی ساتھ ہی نظر آرہی ہو گی ۔ ان کے پاس حرکت میں آنے کے لیے نئی نئی گاڑیاں بھی ہوں گی ، پٹرول بھی خوب ہوگا یعنی ہر وہ چیز ہوگی جو مشن کے لیےدرکار ہوگی مگر اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا ۔ایک سوال کا جواب تو مل گیا کہ القسام بریگیڈ کے پاس اسلحہ پہنچنے کے ممکنہ طریقہ کار کیا تھے ۔ دوسرے سوال کا جواب بوجھنا باقی ہے کہ اتنا بڑا حملہ ہوگیا اور اسرائیلی ایجنسیوں کو اس کی بھنک تک نہیں پڑی ۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔