اسلام آباد( نمائندہ خصوصی) نیشنل کمیشن برائے وقار نسواں (این سی ایس ڈبلیو) نے اپنے ڈویلپمنٹ پارٹنرز یونیسیف، یو این ایف پی اے، یو این وومن، ایف سی ڈی او اور یوکےایڈ کے اشتراک سے آج اسلام آباد میں کم عمری کی شادی ختم کرنے سے متعلق دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جسکا اہتمام 11 اکتوبر، انٹرنیشنل گرل چائلڈ ڈے کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کا مقصد تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ان پٹ کا جائزہ لے کر کم عمری کی شادی کے خاتمے کے حوالے سے قومی فریم ورک مرتب کرنا تھا۔ اس کانفرنس کے دوران ،قومی سطح پر مشاورت کے بعد، پالیسیز پر بحث کرنے کے لئے صوبائی سطح پر مشاورت بھی کی جائے گی۔ کانفرنس میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، صوبائی محکموں، نامور پالیسی ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنوں، طبی ماہرین، معززین، سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور نمائندوں نے شرکت کی۔ اپنے ابتدائی کلمات میں چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو محترمہ نیلوفر بختیار نے کہا کہ یہ ایک بدقسمتی ہے کہ ملک میں کم عمری کی شادی کو روکنے کا بل مقننہ میں تقریباً چھ بار بھیجا گیا لیکن پاس نہیں سکا۔ یہ بل ہر بچی کی تعلیم اور صحت کے حق کو محفوظ کرتا ہے لیکن یہ بل ہمارے اداروں کی بڑی ناکامی بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے کہ لاکھوں لڑکیاں موجودہ معاشرتی اور معاشی حالات کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکتیں، وہ اپنے خاندان اور معاشرے کی طرف سے ایک صحت مند ماحول اور بھرپور حمایت کے مستحق ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی چاروں صوبوں میں شادی کے لئے قانونی عمر میں فرق ہے۔ یہ امر نے پالیسی سازوں اور نفاذ کرنے والوں سے فوری توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ سول سوسائٹی پر مضبوط اعتماد رکھتی ہیں ؛ جب بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوئے تو حالات بدلے ہیں۔ انھوں نے تہیہ کیا کہ وہ کم عمری کی شادی کو ختم کرنے کے ایجنڈے کو اپنے معاونین کے ہمراہ آگے بڑھائیں گی کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہےجو بہت ساری نسلوں کو بری طرح متاثر کررہی ہے -اس موقع پر محترمہ لاٹکا مسکی پردھان، ڈپٹی کنٹری ریپ آف یو این ایف پی اے نے کہا کہ پاکستان میں اڈلوسنٹ فرٹیلٹی کی شرح 15-19 سال کی عمر میں 46 فی ہزار ہے۔ پچیوں کے پرائمری اسکول چھوڑنے کی شرح 22.7 فی صد ہے، جو اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ جہاں %32 شادی شدہ بچیاں (15-19 سال کی عمر) صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس فریم ورک کی ضرورت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی ہے کہ کم عمری کی شادی کو روکنے، ختم کرنے اور اس کا جواب دینے کے لئے جامع اقدامات موجود ہوں، اس طرح تمام بچیوں کو بچپن کی مکمل نشونما اور ضروری تحفظات کا احساس دلانے کے قابل بھی بنایا جائے گا۔ اس ہدف کے لئے اجتماعی نقطہ نظر ہی آگے بڑھنے کا واحد حل ہے۔ محترمہ دانیالا لوکیانا، چیف چائلڈ پروٹیکشن یونیسف نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ بچیوں کی حفاظت کرنے والی پالیسیاں نافذ کرنے اور قوانین نافذ کرنے کے لئے قیادت اور عزم انتہائی اہم ہیں۔ ایک مضبوط قانونی فریم ورک کی ضرورت تھی جو نہ صرف بچیوں کی شادی پر پابندی لگاتا ہو بلکہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے احتساب کو بھی یقینی بناتا ہو۔
کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کنٹری ریپ یو این وومن مسٹر فرینکلن اوکمو نے کہا کہ افراد، خاندانوں اور برادریوں سے ماورا، بچیوں کی شادی پر معاشی نقصان بھی بہت زیادہ ہے۔ این سی ایس ڈبلیو اور یو این وومن کے ایک مطالعے سے پتہ چلا کہ پاکستان میں بچیوں کی شادی کی کل لاگت 8. بلین ڈالر یا جی ڈی پی کا 0.42 فیصد ہے۔ ک۔ عمر دلہنیں خود زندگی سمیت صحت کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ حمل اور بچے کی پیدائش میں عالمی سطح پر پیچیدگیاں 15-19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ھیں۔ انہوں نے اختتام میں دہرایا کہ، "براہ مہربانی میری بچی کے ساتھ گڑبڑ نہ کریں۔مہمان خصوصی محترمہ جو موئیر ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر ایف سی ڈی او نے اپنے اختتامی ریمارکس میں کہا کہ بچیوں کی شادی سخت نتائج کے ساتھ ایک نقصان دہ عمل ہے جو نسلوں کو متاثر کرتا ہے اور مساوات میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے کے لئے بچیوں کی شادی ختم کرنے سے متعلق قومی فریم ورک ضروری تھا۔ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان رابطہ قائم کیے بغیر اس مسئلے پر مشترکہ بیانیہ استوار کرنا اور شادی کی عمر بڑھانے کے لیے سماجی اور سیاسی مزاحمت پر قابو پانا مشکل ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کام کے س فریم ورک کی ٹائمنگ مناسب ہے کیونکہ یہ اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لئے انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کی بنیاد رکھے گی۔بعد ازاں ایک سرکاری اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ ملائکہ عارف نے حاضرین کے ساتھ اپنے خیالات اور خوابوں کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح وہ محنت، اختراعی خیالات اور مخصوص رنگوں کے ساتھ اپنے عزائم کو پورا کرنا چاہتی ہیں لیکن سماجی رویے اور ذہن سازی ان کے خوابوں کی تعبیر کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔اس کے بعد ایک مجوزہ فریم ورک پیش کیا گیا جس میں مختلف شعبوں میں عمل درآمد کے لئے تجاویز پیش کی گئیں جس کے بعد کم عمری کی شادی کے صحت اور معاشرتی نتائج پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جو اس نتیجے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ ذہنوں اور سماجی طرز عمل اور نقطہ نظر کو تبدیل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ پاکستانی معاشرے میں قانون سازی۔ اور یہ ملک میں کم عمری کی شادی کو ختم کرنے کا واحد ٹھوس حل ہے۔