کراچی ( رپورٹ کاشف گرامی)
ضیامحی الدین کا نام آتے ہی ذہن کی سکرین پر 70ء کی دہائی کے ٹی وی ڈرامے اور وہ فلمیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں، جن میں کام کرکے ضیامحی الدین نے اپنے فن کا سکہ جمایا۔ یہ نابغہ روزگار فنکار 20 جون 1933ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوا۔ ان کا خاندان روہتک (ہریانہ) سے تعلق رکھتا تھا۔ انہوں نے ابتدائی زندگی قصور اور لاہور میں گزاری۔ انہوں نے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک کلب لندن سے اداکاری کی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے سٹیج ڈراموں ’’ لونگ ڈے جرنی ان ٹونائٹ اور جولیس سیززمیں کام کیا۔ 1960ء میں انہوں نے ’’اے پیسج ٹو انڈیا‘‘ میں کام کیا۔
ان کی پہلی فلم ’’لارنس آف عریبیا‘‘ تھی،جو 1962ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے عربی بدو کا کردار ادا کیا، جسے عمر شریف اس بنا پر گولی مارکر ہلاک کر دیتا ہے کیونکہ وہ غلط کنوئیں سے پانی پی لیتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اس فلم میں مختصر کردار ادا کیا، لیکن انہوں نے متاثرکن اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ لارنس آف عریبیا کا شمار ہالی وڈ کی مشہور ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ اس فلم میں پیٹراوٹول عمر شریف اور انتھونی کوئن بھی شامل تھے۔ اس کے بعد ضیامحی الدین نے کئی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں شاندار کام کیا اور ایک منفرد اداکار کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔
’’اے پیسج ٹو انڈیا‘‘ میں ڈاکٹر عزیز کا کردار اداکر کے انہوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ضیامحی الدین نے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی۔ 1960ء میں وہ دوبارہ پاکستان آگئے۔ 1969ء اور 1973 ء میں انہوں نے سرکاری ٹی وی سے ’’ضیا محی الدین شو‘‘ کے نام سے شو کیا، جسے زبردست پذیرائی ملی۔ اس شو کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے اختتام پر وہ ایک منفرد ڈانس کیا کرتے تھے، جو شائقین کے دلوں کو بہت بھاتا تھا۔ ان کے بولنے کا انداز بھی بہت متاثر کن تھا۔ ان کا اشعار پڑھنے کا انداز بھی دلکش تھا۔ اس کے علاوہ وہ انگریزی زبان میں تحریر کیے ہوئے خطوط بھی شاندار طریقے سے پڑھتے تھے۔ انہوں نے اس بنا پر بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد وہ واپس برطانیہ چلے گئے۔
80 کی دہائی میں انہوں نے برمنگھم میں کام کیا۔ 2005ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ضیامحی الدین کو کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) کی تشکیل کی دعوت دی۔ تادم تحریر وہ ناپاکے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ضیامحی الدین نے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت کئی شعبوں میں قابل قدر مقام حاصل کیا ہے۔ ان کے فن کا آفتاب کبھی غروب نہیں ہوا۔ ان کے مداحوں کی تعداد آج بھی بہت زیادہ ہے۔ آرٹ کی تاریخ ان کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ ان کا کام قابل تحسین بھی ہے اور قابل فخر بھی!