اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کو بتایا کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے افغان درآمدات کے لیے بینک گارنٹی کو لازمی قرار دیا ہے،کمیٹی کے سامنے چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے کی تازہ ترین صورتحال پیش کی گئی۔ سیکرٹری تجارت نے بے ضابطگیوں کو دور کرنے اور معاہدے کے فوائد کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ سینیٹر دانش کمار نے بلٹ ان پروسیسنگ پلانٹس کے ساتھ غیر ملکی ٹرالروں کے ذریعے 3 سے 4 بلین ڈالر مالیت کی ماہی گیری کی اسمگلنگ پر تشویش کا اظہار کیا،پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا۔اجلاس میں کمیٹی کے سربراہ نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے میڈیا میں اٹھائے گئے خدشات کو دور کیا۔ سیکرٹری وزارت تجارت نے واضح کیا کہ افغان برآمدات تقریبا ایک ارب ڈالر ہیں اور رواں مالی سال میں درآمدات چھ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ یہ فرق بہت بڑا ہے اور ہم نے اسے اعداد و شمار کے ساتھ افغان حکومت تک پہنچا دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم میں خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بعض اشیا کی ممانعت اور حساس اشیا پر ایف بی آر کی طرف سے 10 فیصد پروسیسنگ فیس کے نفاذ سمیت اقدامات بھی کیے ہیں۔ ان اقدامات میں ضروری اشیا شامل نہیں ہیں، اور افغان حکام کے ساتھ مسلسل تعاون جاری ہے۔ حکومت پاکستان نے افغان درآمدات کے لیے بینک گارنٹی کو لازمی قرار دیا ہے، جو افغان حکام کی جانب سے پاکستانی مصنوعات کی افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں تک منتقلی کے لیے عائد کردہ ضروریات کے مطابق ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی حمایت کا عزم غیر متزلزل ہے، جامع اعدادوشمار فوری طور پر افغان فریق کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔ حکومت نے پالیسی فیصلے کیے ہیں، اور موجودہ چیلنج زمین پر موثر نفاذ میں ہے۔کمیٹی نے متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے پاکستان سے گوشت کی درآمد پر پابندی کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ وزارت زراعت کے ڈائریکٹر جنرل نے واضح کیا کہ متحدہ عرب امارات کو گوشت کی برآمد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہمارا تجارتی کونسلر متحدہ عرب امارات کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے، ایک مخصوص واقعے کو اٹھایا جا رہاہے جہاں ایک کھیپ معیار پر پورا نہیں اتری اور اسے واپس کر دیا گیا۔ متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں پاکستان سے تازہ ٹھنڈے گوشت کی سمندری نقل و حمل کے لیے اپنی ضروریات پر نظر ثانی کی ہے، اسے ویکیوم پیکڈ گوشت تک محدود کر دیا ہے۔ سینیٹر دانش کمار نے غیر معیاری گوشت کی برآمدات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت تجارت کو ایک مکمل انکوائری اور واپس کی گئی مخصوص کنسائنمنٹ کی تفصیلات سے کمیٹی کوآگاہ کر نے کی ہدایت کی۔ مزید برآں، پاکستان میں گوشت کی مصنوعات کی نقل و حمل، اسٹوریج اور پروسیسنگ کی سہولیات کا تھرڈ پارٹی آڈٹ اینیمل قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر کیا جائے گا۔متحدہ عرب امارات کو سمندری خوراک کی برآمدات کے حوالے سے واضح کیا گیا کہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ سینیٹر دانش کمار نے بلٹ ان پروسیسنگ پلانٹس کے ساتھ غیر ملکی ٹرالروں کے ذریعے 3 سے 4 بلین ڈالر مالیت کی ماہی گیری کی اسمگلنگ پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزارت تجارت کے سیکرٹری نے ماہی گیری اور سمندری خوراک کے شعبے پر حکومت کی توجہ کے بارے میں بتایا کہ اگلے سال جنوری تک ایک جامع پالیسی کی توقع ہے۔ ایک پاکستانی کمپنی نے پہلے ہی یورپی یونین کو سمندری غذا برآمد کرنا شروع کر دی ہے، اور تین مزید کمپنیاں اجازت نامہ کی منتظر ہیں۔ اس شعبے پر نئے سرے سے توجہ دینے سے برآمدات اور درآمدات کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔کمیٹی کو جی ون لہسن کی برآمدی صلاحیت کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ G1 لہسن کے کاشتکاروں کے نمائندوں نے اس کے فوائد پر روشنی ڈالی، بشمول بہتر شیلف لائف اور دیگر مقامی اقسام سے چار گنا بڑا ہونا۔ حکومتی تعاون سے اس پروڈکٹ کو 3 سے 4 سال کے اندر برآمد کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ وزارت نے زرعی توسیعی خدمات کے ذریعے کسانوں کی مدد کرنے اور تربیت اور صلاحیت سازی کے لیے ابتدائی فنڈ فراہم کرنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ لہسن کی پیداوار میں خود کفالت کے بعد ممکنہ برآمدی منڈیوں میں افریقہ اور انڈونیشیا شامل ہیں۔کمیٹی کے سامنے چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے کی تازہ ترین صورتحال پیش کی گئی۔ سیکرٹری تجارت نے بے ضابطگیوں کو دور کرنے اور معاہدے کے فوائد کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آزاد تجارتی معاہدے کے فریم ورک کے اندر مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی کو فعال کیا جا رہا ہے۔ سیکرٹری نے پالیسی میں تضادات اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے معاہدے کے مکمل فوائد کو حاصل کرنے میں درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔ کمیٹی نے قدر میں اضافے اور خام مال کی برآمد میں کمی کے لیے مقامی صنعتوں کی مدد کی ضرورت کو تسلیم کیا۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز دانش کمار، پلوشہ محمد زئی خان، نزہت صادق، سیکرٹری وزارت تجارت، ڈی جی ایگرو، ٹی ڈی اے پی اور این اے آر سی کے حکام نے شرکت کی۔