کراچی (مدثر غفور) پی ٹی آئی حکومت میں سابق وزیر برائے شہری ہوا بازی غلام سرور کا بیان کہ بیشتر پاکستانی پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ جس کے بعد پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی اور جو ,-1,,,,پاکستانی پائلٹس پی آئی اے اور غیر ملکی ایئر لائنوں میں خدمات ادا کر رہے تھے ان کو بھی شدید مشکلات و پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، نہ صرف یہ بلکہ امریکہ اور یورپی یونین ممالک میں پاکستانی پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی جو اب تک برقرار ہے۔ مذکورہ تشویشناک بیان کے بعد پاکستان سول ایویشن اتھارٹی نے پہلے محکمہ جاتی کاروائی کی اور مبینہ جعلی لائسنسوں کے متعلق فارنسک کروایا اور پھر تحریری درخواست ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی کو دے دی۔ تحقیقاتی ادارے کے پاس پی آئی اے سے متعلق 53 انکوائریاں تھیں ان میں سے 8 جعلی لائسنس اور اس سے متعلقہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تھی۔ اس وقت سرکل کے قائم مقام سربراہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر رؤف شیخ تھے، ان کی موجودگی میں 3 مقدمات درج ہوئے اور بعد میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد فاروق تھے اس وقت ان کی موجودگی میں پانچ مقدمات درج ہوئے۔ مذکورہ مقدمات میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی مگر بیشتر پائلٹس نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی۔ لیکن گزشتہ روز ایڈیشنل جج سینٹرل ٹو کراچی نے تقریبا ایک جیسے درج 7 مقدمات میں سے سب سے اہم ایک مقدمہ نمبر 7/21 کا 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے کہ دونوں اداروں ایف آئی اے اور سی اے اے کا دعوی تھا کہ 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ مگر مقدمات 67 پائلٹس کے خلاف درج کیے گئے۔ ان میں سے 20 نامزد پائلٹس جو مقدمہ نمبر 7 /21 میں نامزد کئے گئے ان کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ دیا۔ فیصلے میں سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایف آئی اے کی تحقیقات کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے گئے کہ کس طرح 180 پائلٹس کو بری الزمہ قرار دیا گیا اور 67 کو ملزم بنا دیا گیا جبکہ الزامات تقریبا ایک جیسے تھے۔ مقدمے کے آخری تفتیشی افسر سب انسپکٹر راحت خان اور لیگل افسر نے بھی کیس ختم کرنے کی درخواست کی۔ فیصلے میں سینیٹ کمیٹی برائے شہری ہوا بازی کی کاروائیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور دونوں ادارے کمیٹی کو تحقیقات کے حوالے سے مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ ضمانت پر موجود تمام 20 ملزمان عدالت میں حاضر تھے ان کی بریت اور مقدمہ خارج کرنے کےساتھ ساتھ ان کی جمع کردہ حفاظتی رقوم بھی واپس کرنے کا حکم دیا گیا۔ایوی ایشن ذرائع کے مطابق یہ واحد مقدمہ تھا جس پر ایف آئی اے پر بے انتہا دباؤ تھا اور تین نامزد ملزمان کے نام ایف آئی آر میں شامل نہ کرنے کا کہا جاتا رہا مگر ایسا نہیں ہوا۔ دبائوں کی وجہ 20 ملزمان میں سے دو ملزمان ایک طاقت ور ادارے کے حاضر سروس کرنل اور دوسرا بریگیڈئیر ریٹائرڈ کا بیٹا تھا جبکہ تیسری خاتون کیلئے سینیٹ کے رکن سلیم مانڈی والا خود ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل آفس آئے تاکہ ان کا نام نکالیں جائیں۔ اس مزکورہ خاتون کی سفارش کیلئے 4 مختلف پارٹیز کے اراکین اسمبلی بھی ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی بھی آئے تھے مزکورہ خاتون پائلٹ لائسنس کے امتحان میں بیٹھی ہی نہیں تھی۔سینیٹ کمیٹی برائے شہری ہوا بازی میں 4 بار معاملہ زیر بحث آیا جس میں سلیم مانڈی والا نے ایف آئی اے پر غیر اطمینانی کا اظہار کیا تھا۔ایف ائی اے ذرائع کے مطابق مذکورہ سرکل میں اس حوالے سے مجموعی طور پر 2021 میں 8 مقدمات درج ہوئے۔ مقدمہ نمبر 7 کے پہلے تفتیشی افسر انسپکٹر جبار مہندرو تھے اور بعد میں تفتیش سب انسپکٹر راحت خان کو منتقل کر دی گئی۔ دیگر مقدمات میں 8 نمبر کے مقدمے کا تفتیشی افسر سب انسپکٹر راحت خان تھا۔ 9 کے تفتیشی افسر مرحوم انسپکٹر گل شیر مغیری تھے۔ 24 کے انسپکٹر جبار مہندرو،11 کی انسپکٹر عمارہ قریشی، 13 کے پہلے سب انسپیکٹر شبیر چانڈیو جنہوں نے عدالت میں ضمنی چالان پیش کیا، بعد میں تفتیش انسپکٹر اسفند یار کو منتقل کر دی گئی جنہوں نے حتمی چالان پیش کیا۔ مزید 47 پائلٹس باقی چھ ایف آئی آرز میں نامزد ہیں۔ اور یہ چھ مقدمات بھی مذکورہ عدالت میں ہی زیر سماعت ہیں۔