اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ نے مقدمات میں ریکارڈپیش نہ کرنے ،دلائل میں تاخیر ،بار بار التواءکی درخواستوں کے معاملے میں وکلاءپرجرمانہ عائدکرنے بارے ہیٹرک کرلی۔ عدالت نے ان لینڈریونیوحکام کونوٹس جاری کردیے ہیں اور چیئرمین ایف بی آرسمیت دیگراداروں کوہدایت کی ہے کہ ٹیکس کے معاملات میں صرف ان ہی افسران اور معاونین کوسپریم کورٹ بھیجاجائے جنھیں ہر طرح کی صحیح معلومات ہوں۔تمام ترمقدمات کامکمل ریکارڈبھی ساتھ لایاجائے۔اب ہم آپ کوبار بار کہ چکے ہیں اب رعایت نہیں ہوگی۔کیس چلاناہے تومکمل ریکارڈساتھ رکھیں نہیں تودرخواستیں خارج کردیں گے جبکہ عدالت میں مکمل دستاویزات پیش نہ کرنے پر وکیل کو دو ہزار کا جرمانہ عائدکردیاہے۔عدالت نے جرمانہ انکم ٹیکس کے کیس میں وکیل کی جانب سے دستاویزات پیش نہ کرنے پر کیا۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی نے کہاہے کہ ہم زرا اولڈ فیشن ججز ہیں مکمل دستاویزات دیکھے بنافیصلہ نہیں کرسکتے۔ معاونت خود نہیں کرسکتے اور سارابوجھ اور الزام عدالتوں پر لگادیاجاتاہے کہ عدالتوں نے اربوں روپے پر حکم امتناع دے رکھاہے۔آپ کے ساتھ ریونیو کا کوئی افسر نہیں آیا ،آپ بتائیں کتنا جرمانہ کرے آپ کی مرضی کے مطابق کر لیتے ہیں،جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ قابل ٹیکس اثاثوں کے حوالے سے یہ بے شدہ قا نون ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے ٹیکس ادائیگی کی ایسی حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنے کاپابندہے کہ جس کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہی نہ پڑے ،جن کے معاملات کی جانچ کی ضرورت پڑجائے سمجھ جائیں کہ معاملہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔انھوںنے یہ ریمارکس منگل کے روزدیے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی اس دوران درخواست گزار نے عدالت کوبتایاکہ جوریکارڈعدالت نے مانگاتھاوہ میرے پاس مکمل طورپر موجودنہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے پوچھاکہ آپ کے ساتھ کوئی انکم ٹیکس آفیسر نہیں آیاتواس پر وکیل نے بتایاکہ جی میرے ساتھ کوئی نہیں آیا اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کہا ہے انکم ٹیکس کا کیس تب تک چل سکتا جب تک متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کا بندہ ساتھ ہو،عدالت کو معاونت ملتی نہیں اور کہتے ہیں اربوں، کروڑوں روپے مالیت کے کیس پر سپریم کورٹ کا اسٹے ہے،عدالت نے کہاکہ ہم اس پر متعلقہ حکام کونوٹس جاری کررہے ہیں وہ تمام تر ریکارڈعدالت میں پیش کیاکریں دوسراہم دیگرحکام کوبھی متنبہ کررہے ہیں وہ انکم ٹیکس اور دیگرٹیکس معاملات میں اس بات کویقینی بنائیں کہ کوئی بھی کیس پراپر معاونت کے بغیرہم نہیں سنیں گے اگر ایساکوئی کیس آیابھی تووہ خارج ہوگااور اس میں کوئی ریلیف نہیں دیں گے۔سمجھ میں نہیں آتاہم بار بار یہ کہ چکے ہیں کہ ہمیں پراپر معاونت فراہم کی جائے اس کے باوجودمعاونت فراہم نہیں کی جارہی ہے ہم جرمانہ آپ پر عائدکررہے ہیں تاکہ حکام کوبھی پتہ چل سکے کہ ان کے مقدمات میں پوری طرح سے معاونت نہیں کی جارہی ہے اب یہ عدالت سنی سنائی باتو ں پر نہیں جائیگی سب کوٹھوس شواہد کے ساتھ آناہوگااور کوئی التوائ بھی نہیں دیں گے افسران اس بات کویقینی بنائیں کہ انکم ٹیکس کے معاملات میں عدالت کی معاونت کے لیے قابل لوگوں کوہی بھجوایاجائے ان سب کوتمام ترمعلومات بھی حاصل ہوں اور وہ پورے ریکارڈکے ساتھ بھی ہوں وگرنہ مقدمات خارج ہی ہوں گے اور اس بار ے رعایت نہیں ہوگی۔85کروڑروپے کامعاملہ ہے اس کوہم ایسے نہیں نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔آپ کے غیر ضروری دلائل سے آپ کوکچھ فائدہ نہیں ہوگااور اس سے صرف عدالت کاوقت ہی ضائع ہوگاجوہم اب ضائع نہیں کرنے دیں گے۔جسٹس اظہر من اللہ نے کہاکہ قابل ٹیکس اثاثوں کے حوالے سے یہ بے شدہ قا نون ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے ٹیکس ادائیگی کی ایسی حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنے کاپابندہے کہ جس کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہی نہ پڑے ،جن کے معاملات کی جانچ کی ضرورت پڑجائے سمجھ جائیں کہ معاملہ قانون کے مطابق نہیں ہے بعدازاں سپریم کورٹ نے ان لینڈ ریونیو کو نوٹس جاری کردیا ہے اور ان سے جواب طلب کیاہے اس کے ساتھ ساتھ حکام کوپوری تیار ی کے ساتھ پیش ہونے کی بھی ہدایت کی ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ ہم کوشش کریں گے کہ جناب کے حکم کی تعمیل ہواس پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کیااور کہاکہ آپ کوشش کریں اگر تعمیل نہ ہو پھر دیکھے کیا ہو تا ہے ،ایسی بات ہی نہ کیا کریں اس کا مطلب کہ آپ کے پاس آپشن ہے کہ تعمیل نہ کرے ،آپ بتائیں کتنا جرمانہ کرے آپ کی مرضی کے مطابق کر لیتے ہیں،اس پر درخواست گزارنے کہاکہ ایک ہزار جرمانہ کر دیں،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ جیسے سینئر وکیل سے یہ امید نہیں تھی چلے دو ہزار کر دیتے ہیں،جرمانہ اپنی مرضی کے چیرٹی فنڈ میں جمع کروا کہ رسید عدالت میں جمع کروائی جائے،اگر ریسیدنہ پیش کی توپھر آپ کے جرمانے کے ساتھ لگائی گئیں صفریں بڑھ بھی سکتی ہیں۔