ایک کامیاب آف اسپنر رہے ہیں۔ سال انیس سو اسّی میں اس رائٹ آرام آف اسپنر کی قومی ٹیم میں اچانک شمولیت پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس میں سابق کپتان اور آل راونڈر مشتاق محمد اور جاوید میاں داد نے بنیادی کردارادا کیا تھا۔ فیلڈ میں جاوید میاں داد اور عمران خان سمیت ان کو کھلاڑی پیار سے “ٹوص” پکارتے تھے۔
ٹیم میں ٹوص کی شمولیت کے غالبا دوسرے ہی دن پی ٹی وی پر مشتاق اور جاوید ایک پروگرام میں آنے والی سیریز پر گفتگو کررہے تھے کہ میزبان نے اس نئے لڑکے کی شمولیت کی وجہ دریافت کی! مشتاق اور جاوید دونوں نے پروگرام میں اس فیصلے کی تفصیل بیان کی اور امید ظاہر کی کہ یہ نیا لڑکا اچھا پرفارم کرے گا۔ جاوید نے بات مکمل کرتے ہوئے ٹوص کو ویسٹ انڈیز کے لانز گبز (Lance Gibbs) سے تشبیح دیتے ہوئے یہ بھی کہا، “توصیف کی گیند گبز کی طرح پڑ کر اُٹھتی ہے۔” گبز بھی رائٹ آرم آف اسپنر تھے، وہ غرب الہند کے سابق کپتان اور پہلے ورلڈ کپ کے ہیرو کلایئو لائڈ کے کزن ہیں، اور کرکٹ کی تاریخ میں تین سو وکٹیں مکمل کرنے والے دوسرے کھلاڑی بھی ہیں۔
پھر جب توصیف احمد پہلی بار ٹی وی پر جلوہ گر ہوا تو ایسا لگا کہ اس کی تو شکل بھی کافی حد تک لانز گبز جیسی ہے۔ میں نے سوچا،”جاوید میانداد نے پروگرام میں لانز گبز سے توصیف کی ملتی جلتی شکل کا ذکر کیوں نہیں کیا تھا؟” اس پر کسی نے جواب دیا کہ جاوید منہ نہیں، کھیل دیکھتا ہے۔
چند ہی برسوں بعد سال انیس سو چوراسی کے اولمپکس کی تقریب میں پہلی بار لینل رچی (Lionel Richie) کو گیت گاتے دیکھا اور سنا، اس کی شکل دیکھ کر تو یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہ ٹوص نہیں ہے۔ لینل رچی کی توصیف سے مشابہت حیرت انگیز تھی۔ یہ بات بھی جاوید میاں داد کو بتادینا چاہئے تھی۔
توصیف احمد، لانز گبز اور لینل رچی کو آج یاد کرتے ہوئے بچپن کے دن شدت سے یاد آرہے ہیں کہ جب فیروز نامی ایک پڑوسی ہمارے ہاں آیا جایا کرتے تھے، اور محلے کی فٹ بال ٹیم میں بھی کھیلتے تھے۔ وہ محلے بھر میں فیروز ماموں کہلاتے تھے، پہلی بار ٹوص کی شکل دیکھ کر وہ بھی یاد آئے تھے۔
ایک بار میں پریکٹس کے دوران گول کیپنگ کررہا تھا، کہ فیروز ماموں نے زور دار کِک لگائی، میں نے گول روکنے کی کوشش کی، تو میری نازک کلائی اتر گئی۔ اس پر کئی دن تک سافٹ پلاستر چڑھا رہا۔ بہرحال، ملتی جلتی صورت والی یہ چاروں شخصیات زندگی کی دلچسپ یادوں میں شامل ہیں۔
توصیف احمد سے متعلق بہت سے واقعات اس وقت یاد آرہے ہیں، جیسے ایک بار معین اختر نے ایک پروگرام میں ٹیم کی کارکردگی پر اپنے مخصوص انداز میں طنز کرتے ہوئے پنجابی لہجہ بناکر ان کی شکل کو نشانہ بنایا، مجھے یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی تھی! ایک افسوسناک واقعہ یہ بھی کہ ایک زمانے میں کراچی میں اردو اور پنجابی اسپیکنگ کمیونٹیز کے درمیان کشیدگی کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اس دوران چند غنڈوں نے توصیف احمد کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی، جس سے انہیں بڑا مالی نقصان ہوا! اس واقعے پر دل بہت دنوں تک بجھا بجھا سا رہا۔
ٹوص حیرت انگیز بولر تھا۔ ووین رچرڈز، گورڈن گرینیج اور گریگ چیپل جیسے بلے بازی کے جادوگر ان کی گیند کھیلتے ہوئے پریشان رہتے تھے۔ وہ رنز روک لیتے تھے، اور انہوں بارہا جم کر کھیلنے والے بلے بازوں کو اچانک پویلین کا راستہ بھی دکھایا۔ ایک بار عمران خان سمیت جب ویسٹ انڈیئن بلے بازوں نے ہمارے تمام بولرز کا مار مار کر بھر کس نکال دیا، ہم سب نے ٹیلیویژن پر براہ راست عمران خان کی زور دار آواز سُنی، “ آجاو ٹوص، گیند کراو!” پھر ٹوص نے کچھ ایسی گیند گھمائی، کہ رنز لینا گویا ویسٹ انڈیئنز کے لئے خواب ہی بن کر رہ گیا۔
جاوید میاں داد نے جب اپنا شارجہ والا امشہور تاریخی چھکا رسید کیا تھا، تو ٹوص بولنگ اینڈ پر تھا، اور اس تاریخی جیت پر اس نے غلطی سے پولس کا ڈنڈا بھی کھایا تھا۔ الغرض ٹوص سے متعلق ہر یادداشت میں اس شریف النفس کھلاڑی کی محنت، مہارت، قربانی اور حب الوطنی کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ اورمشابہت کی تمام تر مثالوں سے قطعہ نظر، ان کے چہرے پر سادگی، معصومیت، مہارت اور جفاکشی کا حسن آج بھی بکھرا دکھائی دیتا ہے۔