نیویارک(اے پی پی) نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے پرعزم ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، امریکی سرمایہ کاروں کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے، پاکستان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے روابط کا خواہاں ہے، مقبوضہ کشمیر میں 2019ء میں بھارتی یکطرفہ اقدامات سے خطے کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق آئندہ عام انتخابات جنوری میں ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو امریکہ کے معروف تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز سے خطاب اور گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان تاریخی لمحات سے گزر رہا ہے، آئندہ مہینوں میں پاکستانی عوام نئی حکومت منتخب کریں گے، نگراں حکومت کا کام آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے معاونت فراہم کرنا ہے، ہم جمہوری اصولوں کے پابند ہیں جس کا آئین پاکستان میں تعین کیا گیا ہے، نگراں حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان کے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے، مستحکم اور جمہوری پاکستان سے امریکہ جیسے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات مزید فروغ پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پاک۔امریکہ دیرینہ تعلقات کی بنیاد ہیں، دونوں ممالک کا کئی علاقائی اور عالمی امور پر مشترکہ نقطہ نظر ہے، پاک۔امریکہ تعلقات کو کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں نہیں دیکھتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مشترکہ ایجنڈا سکیورٹی تعاون، سرمایہ کاری، آئی ٹی، توانائی، موسمیاتی تبدیلی، زراعت، روابط، عوام کی سطح پر تعلقات اور ثقافتی وفود کے تبادلوں پر مشتمل ہے، امریکہ کے تعاون سے ماحولیاتی تبدیلی، عدم تحفظ خوراک کے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملی ہے، معاشی تعلقات کی بحالی کیلئے تجارت و سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا ہے، امریکہ پاکستان سے اشیاءبرآمد کرنے والا بڑا ملک ہے، گذشتہ سال پاکستان کی امریکہ کو برآمدات کا حجم 8.4 ارب ڈالر رہا جو امریکہ کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار ہے، 80 امریکی کمپنیاں پاکستان میں کاروبار کر رہی ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کی گئی ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے، ایس آئی ایف سی کے ذریعے زراعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، پاکستانی طلباء و طالبات سکالرشپس پروگراموں کے ذریعے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہم امریکہ کے ساتھ تعلیمی شعبہ میں تعاون میں اضافہ کے خواہاں ہیں، 10 لاکھ پاکستانی امریکہ میں مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے سکیورٹی چیلنجز پیچیدگی کا شکار ہیں، ہمیں مشترکہ خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سرحدی تجارت، فوجی تنازعات، دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی، عدم تحفظ خوراک، مہاجرین کی تعداد میں اضافہ، غریبوںاور امیروں کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی تفریق اور کورونا وبا جیسے چیلنجز شامل ہیں، اس سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور یہ عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے چیلنجز کے تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی طور پر متفقہ شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے اور باہمی مفاد پر مبنی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں گذشتہ سال موسمیاتی تبدیلی کے باعث تباہ کن سیلاب آیا، ہم دنیا پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے آگاہ ہیں، پاکستان عالمی گرین ہاوس گیسوں میں حصہ ایک فیصد ہے تاہم یہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، پاکستان کاربن کے اخراج سے نمٹنے کیلئے بھرپور کوششیں کر رہا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اکیلے بوجھ نہیں اٹھا سکتے، اجتماعی ردعمل کیلئے موسمیاتی انصاف فراہم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے لاس اینڈ ڈیمج فنڈ قائم کیا گیا جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو مدد فراہم کرنا تھا تاہم اپنے مشترکہ مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، تباہ کن سیلاب کے دوران پاکستان کی مدد پر امریکی حکومت اور عوام کا شکرگزار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور داعش جیسی کالعدم تنظیمیں پاکستان اور پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہیں، ہمیں اس ابھرتے ہوئے نئے خطرے سے نمٹنے کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ افغان حکومت کے ساتھ بعض معاملات پر تعاون کی فضا موجود ہے، افغانستان میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی قوت برسوں موجود رہی، امریکہ سمیت دنیا کی بڑی فوجی طاقتیں 20 سال تک افغان سرزمین پر موجود رہیں، پاکستان میں یومیہ بنیاد پر ہمارے بہادر فوجی اور عوام دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں، افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں، اگر افغانستان میں استحکام نہ آیا تو یہ نہ صرف ہمسایہ ملکوں بلکہ عالمی امن کیلئے بھی چیلنج بن کر ابھرے گا، ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا ء کا دل قرار دیا تھا، اگر کسی جسم کا دل خرابی کا شکار ہو تو اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں، افغانستان میں مسلح گروہ 20 سال تک بیرونی مغربی طاقتوں سے لڑتے رہے، پاکستان افغانستان تعلقات میں بہتری کے حوالے سے پرامید ہوں، دنیا کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی خطے میں حالات یکساں نہیں رہتے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان اور امریکہ کے مفاد میں ہے، افغانستان کو خواتین کے حقوق، لڑکیوں کی تعلیم اور افغان سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گرد حملوں کیلئے استعمال نہ ہونا یقینی بنانے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے، پاکستان سمجھتا ہے کہ ہمسائیگی میں امن و استحکام ملک کے معاشی و سماجی شعبہ کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے، خطے اور اس سے باہر تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ماضی میں امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کا خواہاں ہے تاہم بھارت کو خلوص کا مظاہرہ کرنا چاہئے، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھارت نے 2019ء میں یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کئے جس سے خطے کو خطرناک صورتحال کا سامنا ہے، پاکستانی عوام کو بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی حکومت کے اقدامات کے باعث انسانی حقوق کی سنگین صورتحال اور مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے اقدامات پر گہری تشویش ہے، بھارت میں بڑھتے ہوئے ہندوتوا اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں سے غیر انسانی سلوک افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہندوتوا پالیسی پر عمل پیرا لوگ کیسے اپنے انتہا پسند عزائم کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں، ہندوتوا پالیسی نازی ازم سے متاثر ہو کر اختیار کی گئی ہے، ہندوتوا پالیسی کے تحت بھارت میں اقلیتیں خصوصی طور پر نشانے پر ہیں، ہندوتوا پالیسی سے نہ صرف بھارتی معاشرے بلکہ پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل بھی ہندوتوا پالیسی کی خطے سے باہر اثرات کی عکاسی ہے، ہر مہذب معاشرے میں اختلاف رائے بنیادی جزو ہوتا ہے، کسی بھی مہذب معاشرے میں ہندوتوا جیسی پالیسی قابل عمل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اور امریکہ سے مطالبہ ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں، ہم جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کے خواہاں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط پاک۔امریکہ تعلقات سے جنوبی ایشیا اور باقی دنیا میں ترقی و خوشحالی آئے گی، دونوں فریقوں کی جانب سے مفاہمت، برداشت اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، پاکستان نئے جمہوری دور میں داخل ہو رہا ہے اور امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوں گے، پاکستان پرامن اور خوشحال دنیا اور تنازعات کے حل کیلئے امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طویل افغان تنازعہ کے دوران اربوں ڈالر خرچ کئے گئے، ہمارے افغانستان کے ساتھ تجارتی، ثقافتی سمیت دیگر شعبوں میں تعلقات ہیں، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، نگراں حکومت کا مینڈیٹ ہے کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا عمل مکمل کرائے، منتخب حکومت آنے تک نگراں حکومت آئینی حیثیت رکھتی ہے، نگراں حکومت کا کام آزاد اور غیر جانبدار انتخابات کا عمل مکمل کرانا ہے، انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن تاریخ اور شیڈول کا اعلان کرتا ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق آئندہ عام انتخابات جنوری میں ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان گہرے اور سٹرٹیجک تعلقات ہیں، دونوں ممالک کا کئی علاقائی اور عالمی امور پر یکساں مؤقف ہے، پاکستان اور چین کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں، چین نے مشکل وقت میں پاکستان میں سی پیک کے تحت بھاری سرمایہ کاری کی ہے، چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آزاد اور خود مختار ملک ہے، وہ سلامتی اور سٹرٹیجک امور پر ملکی مفاد میں بہترین فیصلہ کرتا ہے۔