کراچی(نمائندہ خصوصی)وفاقی اردو یونیورسٹی کی قائم مقام انتظامیہ نے غیر قانونی اقدامات کے ذریعے یونیورسٹی کو باپ کی جاگیر میں تبدیل کردیا ہے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے ساتھ ساتھ قائم مقام رجسٹرار محترمہ مہ جبین کے مختلف اوقات میں مختلف دستخط سامنے اگئے ہیں جبکہ موصوفہ قائم مقام وائس چانسلر اوریونیورسٹی سینٹ ممبران کی آشیرباد سے یونیورسٹی کو باپ جاگیر بنا دیا ہے تفصیلات کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کی قائم مقام انتظامیہ نے غیر قانونی اقدامات کے ذریعے یونیورسٹی کو باپ کی جاگیر میں تبدیل کردیا ہے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے ساتھ ساتھ قائم مقام رجسٹرار محترمہ مہ جبین کے مختلف اوقات میں مختلف دستخط سامنے اگئے ہیں جبکہ موصوفہ قائم مقام وائس چانسلر اوریونیورسٹی سینٹ ممبران کی آشیرباد سے یونیورسٹی کو باپ جاگیر بنا دیا ہے وفاقی اردو یونیورسٹی کے ذرائع کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کی رجسٹرار کے دستخط کے کئی نمونے سامنے اگئےمختلف دفتری احکامات میں الگ قسم کے دستخط کیے جا رہے ہیں قانونی حیثیت رکھنے والے مجاریہ رجسٹر میں بھی جعل سازی کے انکشافات سامنے ائے ہیں ذرائع کےمطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کی رجسٹرار ڈاکٹر مہ جبین کی طرف سے جاری کیے گئے دفتری احکامات و دیگر مراسلہ جات میں ان کے دستخط کے چار مختلف نمونے سامنے ائے ہیں جن کی اپس میں مماثلت نہیں۔ ان خطوط سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ رجسٹرار کے دستخط کئی ملازمین کی طرف سے کیے جارہے ہیں۔ اسی طرح کی شکایت پہلے بھی سامنے آئی تھی جسے ذرائع ابلاغ کی زینت بھی بنایا گیا۔ جاری کیے گئے خطوط میں مجاریہ نمبر کے اجراء کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ یونیورسٹی کے انتظامی امور سے واقفیت رکھنے والے ذرائع نے بتایا ہے کہ دفترِ رجسٹرار میں تمام جاری کیے گئے خطوط کا ایک مرکزی مجاریہ رجسٹر ہوتا ہے جس میں تمام جاری کیے گئے اعلامیے، دفتری احکامات و دیگر مراسلہ جات کا سلسلہ وار اندراج کرکے ان کا ریکارڈ رکھ کر ہی یہ تمام خطوط جاری کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک ہی دن یعنی 20ستمبر 2023ء کو دو مختلف دفتری احکامات سامنے آئے ہیں جن میں درج مجاریہ نمبروں میں تقریباً 2100 کا فرق ہے، یعنی ایک دفتری حکم کا مجاریہ نمبر 3182 ہے جبکہ دوسرے دفتری حکم کا مجاریہ نمبر 5267ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ ایک ہی دن کے مختصر دورانیہ میں 2100 سے زائد خطوط کا اجراء ممکن نہیں، لہٰذا اس مفروضہ پر بالکل یقین کیا جاسکتا ہے کہ دفترِ رجسٹرار میں جان بوجھ کر دو مختلف مجاریہ رجسٹر استعمال میں لائے جارہے ہیں اور ذرائع نے یہ بھی مفروضہ بیان کیا کہ ایسا کرکے شاید وفاقی وزارت تعلیم کی طرف سے تحقیقاتی کمیٹی کو دھوکا دینے کی کوشش کی جائے۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اس وقت یونیورسٹی میں بیک وقت دو دفاتر رجسٹرار کے دفتر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان دونوں دفاتر میں الگ الگ مجازیہ رجسٹر پائے جاتے ہیں۔ ایک دفتر رجسٹرار اور دوسرا ٹرانسپورٹ کا دفتر جس کے انچارج ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے قریبی ساتھی عدنان اختر ہیں۔ عمومی خطوط کی انٹری دفتر رجسٹرار کے مجاریہ رجسٹر اور کچھ خاص اور خفیہ خطوط کی انٹری عدنان اختر کے دفتر میں موجود مجاریہ رجسٹر میں کی جاتی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ اب یہ ضروری ہے کہ کمیٹی ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے اور جتنے بھی پوشیدہ مجاریہ رجسٹر زیرِ استعمال ہیں یا خطوط جاری کیے گئے ہیں ان تمام کو برآمد کروایا جائے تاکہ تحقیقات درست سمت میں بڑھ سکے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی سرکاری دفتر کا مجاریہ رجسٹر ایک قانونی شہادت کی حیثیت رکھتا ہے اور بوقت ضرورت اس رجسٹر کو شہادت کے طور پر کوئی بھی عدالت منگوا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے بھی اردو یونیورسٹی کا یہ تنازعہ انتہائی اہم قانونی نوعیت کا بھی معاملہ ہے جس کی تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔