کراچی ( رپورٹ: راؤ محمد جمیل ) شہر قائد کے اہم ضلع ملیر میں سینکڑوں جعلی صحافی اور طویل عرصے سے قانون ، انصاف اور امان وامان کھلے عام فروخت کرنے والے راشی پولیس افسران نے مافیاز کی شکل اختیار کرلی گٹکے ماوے ، منشیات اور اسمگلنگ شدہ ایرانی پیڑول ڈیزل سمیت دیگر گھناﺅنے دھندوں میں ملوث ان پڑھ اور جاہل افراد نے بھی چند ہزار روپے ماہانہ کے عوض جعلی اخبارات اور خود ساختہ ویب چینل کے پریس کارڈ حاصل کر لیے مذکورہ جعلی صحافیوں میں پولیس کے مخبر اور منظم جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بھی شامل ہیں مصدقہ اور اہم ذرائع سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق ضلع ملیر جعلی صحافیوں کی ایجاد میں صف اول پر اور نمایاں حیثیت کا حامل ہے حالیہ چند ماہ میں ضلع ملیر نے عوامی مسائل کے حل یا ترقیاتی کاموں میں ترقی کی ہے یا نہیں البتہ جعلی صحافیوں کی پرورش اور تیزی سے بڑھتی تعداد کے باعث شہر قائد میں پہلے نمبر پر ہے ذرائع کے مطابق مذکورہ جعلی صحافیوں نے ٹولیوں کی شکل میں مختلف تھانوں اور کاروباری شخصیات کا باقاعدہ محاسبہ کررکھا ہے جبکہ اکثر و بیشتر جعلی صحافی صبح صادق کے بعد حصول رزق کیلئے گھروں سے نکلتے ہیں اور دن بھر مختلف تھانوں اور جرائم کے اڈوں پر دھاوا بولتے ہیں اس دوران مختلف تھانوں میں تعینات بعض راشی ایس ایچ اوز ، پولیس افسران اور اہلکاروں سے ملاقات کے بعد 500 سے ہزار روپے کے عوض انکی ناانصافیوں اور عوامی شکایات کو نظر انداز کرکے انہیں دبنگ پولیس افسران ، دیانت دار، تمام جرائم کے خاتمے کا خالق اور ہیرو قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیتے ہیں جب کہ ضلع بھر میں مختلف جرائم کے اڈوں سے دیہاڑی وصولی کے بعد خوش وخرم رات کو گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ذرائع کے مطابق مذکورہ جعلی صحافیوں نے دو ہزار سے پانچ ہزار روپے ماہوار کے عوض مختلف جعلی اخبارات اور خود ساختہ ویب چینل کے پریس کارڈز حاصل کر رکھے ہیں جبکہ مذکورہ سہولت سے گٹکے ماوے ، منشیات فروشی ، ایرانی اسمگل شدہ ڈیزل پیڑول کی خرید وفروخت ، کوکنگ آئل چوری مافیا ، چھالیہ کی غیر قانونی سپلائی سمیت دیگر گھناونے دھندوں سے وابستہ جرائم پیشہ عناصر اور انکے سہولت کار بھی جعلی پریس کارڈز کے طفیل ” سینئر صحافی ” اور ” نامور اینکرز ” کے طور پر نمایاں مقام رکھتے ہیں ضلع ملیر کے مختلف تھانوں میں تعینات بعض ایس ایچ اوز ، پولیس افسران اور بدنام اہلکاروں سے مذکورہ جعلی صحافیوں کے ” خصوصی مراسم ” بتائے جاتے ہیں کیونکہ یہ صحافی انتہائی کم داموں پر راشی پولیس افسران کی قصیدہ گوئی اور مخبری کی خدمات بھی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں جبکہ ملیر کے کسی بھی تھانے میں کوئی SHO تعینات ہوتا ہے تو یہ جعلی صحافی اور جرائم پیشہ عناصر ، اجرک ، گلوں کے ہار ، خوشنمائ پھولوں کے گلدستے اور مٹھائی کے ٹوکرے لیکر قربت حاصل کرنے کیلئے مبارکباد کے بہانے تھانے پہنچ جاتے ہیں اس دوران تصاویر اور وڈیوز بھی بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرکے سادہ لوح عوام اور کاروباری شخصیات پر اپنا رعب اور دبدبا قائم کیا جاتا ہے تو دوسری جانب مختلف جرائم سے وابستہ عناصر سے ” مال وصولی ” کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے ذرائع کے مطابق مخبری کرکے گرفتاریاں کرانا اور پھیر جرائم پیشہ عناصر اور پولیس کے درمیان ” مخصوص دلالی "” کے عوض رشوت کے نرخ طے کرانا بھی انکا بہترین روزگار اور خود کو معزز اور بااثر ثابت کرنے کا ذریعہ ہے ذرائع کے مطابق مذکورہ جعلی صحافی کیونکہ کسی صحافتی ادارے ، اخبار یا چینل سے وابستہ پیشہ صحافیوں کی طرح دفاتر اور فیلڈ میں ذمہ داریاں ادا کرنے سے بری الزمہ ہیں اس لئیے راشی پولیس افسران اور غیر قانونی دھندوں سے وابستہ افراد کی سہولت کاری کیلئے ” آزاد ” ہوتے ہیں اور بغیر تنخواہ کے ” صحافت ” سرانجام دیتے ہوئے ناصرف عوامی خدمت کرتے ہیں بلکہ شاہانہ زندگیاں بھی گزار رہے ہیں دوسری جانب معمولی تنخواہوں پر 8 سے بارہ گھنٹے دفاتر اور فیلڈ میں پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دینے والے صحافیوں کے پاس نا تو اتنا وقت ہوتا ہے جو وہ تھانوں اور پولیس افسران کو دے سکیں اور نہ ہی اتنے مالی وسائل کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر آنے والے SHO کو ہار پہنا کر پھولوں کا گلدستہ پیش کرکے یا اجرک کا تحفہ دے سرخرو ہو سکیں یہی وجہ ہے کہ جعلی صحافی اپنی دریا دلی ، وسیع وقت اور خصوصی خدمات کے باعث تھانوں اور دیگر سرکاری اداروں میں پیشہ ور اور نامور صحافیوں سے زیادہ اثر و رسوخ کے حامل ، بہترین لباس ، قیمتی گاڑیوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ پُر آسائش زندگیاں بھی گزار رہے ہیں یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ بعض جعلی صحافی پورٹ محمد بن قاسم سے کوکنگ آئل لے جانے والی گاڑیوں سے ڈرائیوروں کی ملی بھگت سے تیل چوری کرنے والے گروہ کی تاک میں رہتے ہیں مذکورہ دھندہ بن قاسم ، سکھن اور شاہ لطیف ٹاؤن کے مختلف علاقوں میں سرانجام دیا جاتا ہے جعلی صحافی ان تیل چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑتے ہیں موبائل سے ویڈیو بنانے کے ساتھ ساتھ گاڑی کا راستہ بلاک کرکے رقم طلب کرتے ہیں مناسب رقم نہ ملنے پر پولیس ایمرجنسی 15 پر کال کرکے پولیس موبائل طلب کرتے ہیں پولیس کی آمد تک گاڑی اور ڈرائیور کو یرغمال بنا کر رکھا جاتا ہے بعد ازاں تیل چوروں کو جان چھڑانے کیلئے پولیس کے ساتھ ساتھ جعلی صحافیوں کی ٹیم کو بھی ” راضی ” کرنا پڑتا ہے ذرائع کے مطابق بڑی تیل چور مافیاز اس بدنظمی سے بچنے کیلئے اکثر پولیس کو ” ہفتہ ” ادائیگی کے ساتھ ساتھ مذکورہ جعلی صحافیوں کی بھی باقاعدہ اور بروقت خدمت کرتی ہے مذکورہ دھندے سے وابستہ ایک کارندے نے روزنامہ ” حمایت ” کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملیر میں صحافیوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث بعض چور گروہوں نے مذکورہ دھندے کو خیرباد کہہ دیا ہے کیونکہ آمدن کم اور ” اخراجات ” مسلسل بڑھ رہے ہیں مذکورہ کارندے کے مطابق ہر تیل چور متعلقہ تھانے کو ایک لاکھ روپے ہفتہ ادا کرتا ہے جبکہ صحافیوں کو فی کس ایک ہزار سے تین ہزار ہفتہ کے حساب سے بھی ڈھائی سے تین لاکھ ہفتہ ادا کرنا پڑتا ہے ذرائع کے مطابق مذکورہ جعلی صحافیوں میں 80 فیصد ایسے آن پڑھ جاہل ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے جبکہ 15 فیصد معمولی تعلیم کے حامل اور 5 فیصد لکھنا تو جانتے ہیں تاہم خبر بنانے کی اہلیت سے محروم ہیں ذرائع کے مطابق مذکورہ جعلی صحافیوں کو پریس کارڈز جاری کرنے والے جعلی اخبارات اور خود ساختہ ویب چینل کے مالکان کا بھی جعلی صحافیوں سے بہترین روزگار وابستہ ہے جو وہ باقاعدہ انتہائی دیانت داری سے وصول کرتے ہیں۔