(تحریر۔ عارف الحق عارف)
آج جمعہ کا مبارک دن اور جون کی ۱۷ تاریخ ہے۔ ۵ بجےصبح فجر کی نماز اور سورہ کہف پڑھ کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ جنگ لندن کرچی کے انور اللہ حسینی نے وٹس ایپ پر یہ افسو ناک خبر دی کہ “ برادر حمزہ ہم میں نہیں رہے” انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے اور ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔ اس خبر نے ہمیں افسردہ کردیا کہ ہمارے دوست ایک کے بعد ایک ہم سے بچھڑتے جارہے ہیں۔جس سے دن بدن احساس تنہائی بڑھتا جارہا ہے۔اور بقول ہمارے شاعر دوست فرحت ندیم ہمایوں ع
اکیلا ہم کو کرتے جارہے ہیں
ہمارے دوست مرتے جارہے ہیں۔
ہم خود کو کتنا ہی نوجوان یا جوان بزرگ کہتے رہیں، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہم کب کے اپنی اننگ کھیل چکے ہیں اور اب ہم بونس کی زندگی جی رہے ہیں۔
برادر حمزہ کا نام علی حمزہ تھا لیکن وہ صحافیوں،وکلاء اور دوستوں کے حلقہ احباب میں اپنے حسن اخلاق، ملنسار طبیعت، خوشگوار مزاج اور ہر ایک سے برادرانہ اور ہمدردانہ تعلقات رکھنے کی وجہ سے برادر حمزہ کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے بل کہ صرف برادر کہنے سے بھی مراد برادر حمزہ ہی ہوتے تھے۔کسی اور کا تصور ذہن میں آنا محال تھا۔ انہوں نے صحافت کے پورے کیرئر میں خود کو ماتحت عدالتوں سے اعلی اور عظمی عدالتوں تک خود کو رپورٹنگ تک محدود رکھا اور اسی میں اپنی شناخت بنائی۔وہ بڑے ہمدرد اور ہر ایک کی مدد کرنے پر ہمیشہ تیار رہتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود غربت اور عسرت کے دور سے گزر چکے تھے اور ایسی زندگی کے دکھ اور درد کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے۔ وہ اپنے اچھے اخلاق اور ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کے رویئے کی وجہ سے صحافی اور وکلاء برادری میں آخر تک بڑے مقبول رہے۔ وہ درجنوں نوجوان کورٹ رپورٹروں کے استاد تھےاور بابائے کورٹ رپورٹرز کہلاتے تھے۔
بردار حمزہ نے ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولی۔ذرابڑے ہوئے تو اسکول میں داخل ہوئے،گھریلو حالات ساز گار نہ تھے۔اس لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کی تلاش شروع کردی۔بابر مارکیٹ لانڈھی میں اخبار فروشی کا کام مل گیا اور وہ گھر گھر اخبار پہنچانے یا پھینکنے والے ہاکر بن گئے۔ اخبار بیچتے بیچتے اخبار نویسی کی طرف رجحان ہوا اور اس کو اپنا کریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہاکری کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور بی اے کرلیا۔ ۱۹۶۷ میں کراچی سے روزنامہ مشرق شائع ہونا شروع ہوا اور اس نے تھوڑے عرصے میں کرچی کے اخبارات میں اہم مقام حاصل کرلیا۔اس نے کراچی کے کئی نوجوانوں کو صحافت میں اپنا مستقبل بنانے اور طبع آزمائی کرنے کے مواقع فراہم کئے اور اردو صحافت کو بڑے بڑے صحافی فراہم کئے۔ان میں عرفان غازی،ارشاد احمد خان، اختر علی رضوی،اشرف شاد،نسیم شاد،ارشاد راؤ، مشتاق سہیل، ولی رضوی، ہمایوں عزیز ،شہریار جلیس، عبدالغفار رحمانی،نعیم آروی،راشدہ نثار،نظام صدیقی،فیضان دادا، فوٹو گرافر وقار حسن، فوٹو گرافرزیدی،ارشاد جعفری، اشتیاق علی خان، آفاق فاروقی،اور شاہد حسین بخاری خاص طور پر یاد ہیں۔ تھوڑے عرصے بعد اس صف میں علی حمزہ بھی شامل ہوگئے۔ ماتحت عدالتوں کی رپورٹنگ سے اپنے صحافتی کیرئر کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے کی محنت اور کام میں توجہ اور لگن سے اپنی شناخت بنالی۔عدالتی شعبے سے تعلق رکھنے والے عملے سے قریبی تعلقات استوار کئے جس کی وجہ سے اچھی خبروں کے حصول میں انہیں کبھی مشکل اور دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔بہت جلد انہوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے بڑے بڑے مقدمات کی رپورٹنگ میں بھی اپنا نام بنا لیا اور وہ اعلی عدالتوں کے وکلاءاور ججوں میں بھی ایک اچھے اخبار نویس کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔کراچی بار اور ہائی کورٹ بار میں ان کاانتظار کیا جاتا تھا۔کہ وہ آئیں تو ان کو خبر دی جائے۔ان کے ماتحت اور اعلی عدالتوں کے ججوں سے بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ان کو ان ججوں سے ان کے چیمبر میں ملاقات میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔
روزنامہ مشرق پریس ٹرسٹ کا اخبار تھا۔حکومتوں کی تبدیلی سے اس کے مالی حالات دگر گوں ہوئے تو عملے کو فارغ کیا جانے لگا۔جنگ میں ۱۹۷۲ سے ماتحت عدالتوں سے اعلی ترین عدالتوں کی رپورٹنگ کا شعبہ ہمارے پاس تھا۔ہماری ذمہ داریوں میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومت،سندھ اسمبلی،پیپلز پارٹی کے سوا ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور بیرون ملک سربراہان حکومت اور اہم شخصیتوں کی کوریج کی وسیع بیٹ شامل تھی۔اس لئے ہمیں جنگ کی رہورٹنگ کے شعبہ میں کسی صحافی کو لانا تھا جو ہمارا معاون ہوتا۔ ہم نے برادر حمزہ کا انتخاب کیا اور ان کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ہمیں خوشی ہے کہ وہ اپنے انتقال تک جنگ کی رپورٹنگ ٹیم کا حصہ رہے اور ان کے ذمہ ہمیشہ عدالتی رپورٹنگ ہی رہی۔
ہم اپنے والد کے ساتھ ۱۹۷۶ میں فریضہ حج کی ادائیگی کےلئے جانے لگے۔ ہمارے قافلے کی قیادت مولانا عبدالغفار سابق ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی کررہے تھے جب کہ اس میں ہمارے علاوہ جنگ کے سابق ایڈیٹر سید محمود احمد مدنی اور سابق ڈپٹی ایڈیٹر نصیر ہاشمی بھی تھے۔برادر علی حمزہ کو معلوم ہوا کہ ہم حج پر جارہے ہیں تو ہمارے گھر آئے اور کہا کہ “ برادر شادی کو برسوں ہوگئے ہیں لیکن اللہ تعالی نے ابھی اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا۔آپ اللہ تعالی کے گھر جارہے ہو، میری طرف سے اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعا کرنا کہ وہ مجھے اولاد کی نعمت سے نواز دے۔” ہم نے یہ بات مدنی صاحب اور نصیر ہاشمی کو بھی بتائی تو نصیر نے بتایا برادر ان کے پاس بھی یہی درخواست کرنے آئے تھے۔ہم نے حج کے موقع پر ان کے لئےخصوصی طور پر دعائیں کیں۔اللہ تعالی نے ان دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور اللہ تعالی نے ان کو بیٹوں کی شکل میں نعمت سے سرفراز کیا۔ان کے دو بیٹے عبید حمزہ اور طارق حمزہ ہیں۔دونوں کو انہوں نے وکالت کی تعلیم دلوائی۔حمزہ نے مسلم لیگی رہنما اور ہمارے دوست نہال عاشمی کی لاء فرم میں انٹرن شپ کی اور اب وہ ڈسٹکٹ اور سیشن جج کے عہدے پر فائز ہیں جب کہ طارق حمزہ سندھ ہائی کورٹ کا اچھا وکیل ہے۔