قاہرہ (شِنہوا) شورش زدہ مغربی ایشیائی ممالک کے کھلاڑیوں کے لیے آمدہ ایشیائی کھیل نہ صرف انفرادی صلاحیتوں کے اظہار بلکہ جنگ اور تنازعات سے متاثرہ ممالک کا نام روشن کرنے کا بھی ایک موقع ہے۔
غزہ کی پٹی کے رہائشی فلسطینی بیچ والی بال کھلاڑی عبداللہ العرقان فلسطینی گروہوں اور اسرائیل کے درمیان فوجی کشیدگی کے دوران بڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی وہ کسی تنازع میں بچ جاتے تو محسوس کرتے کہ یہ ان کے لئے ایک اور پیغام ہے کہ وہ اپنے خواب کی تکمیل کے لئے اپنی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کام جاری رکھیں۔ 20 سالہ نوجوان فلسطینی علاقے میں 4 بڑی فوجی کارروائیوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔
کسی بین الاقوامی مقابلے میں فلسطین کی نمائندگی کرنا العرقان کا بچپن کا خواب تھا۔
ان کی سخت محنت رنگ لائی جس کے بعد وہ اور ان کے فلسطینی ساتھی 2022 اور 2023 میں قطر میں منعقدہ 2 عرب ٹورنامنٹس میں کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
العرقان نے کہا کہ ان تکلیف دہ حالات سے گزرنے پر انہیں خود پر اور اپنی ٹیم پر فخر ہے۔
انہوں نے کہا کہ قطر میں حالیہ جیت نے انہیں ایشیائی کھیلوں میں حصہ لینے اور ایک ایسے ملک میں فلسطینی پرچم بلند کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی ترغیب دی جس کا انہوں نے ہمیشہ خواب دیکھا ۔
ٹوکیو 2020 میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے 29 سالہ ویٹ لفٹر مان اسعد نے بتایا کہ ہماری معاشی صورتحال خراب ہے لیکن یہ ہمیں اپنے ملک اور اس کے لوگوں کی مثبت تصویر اجاگر کرنے اور اسے پیش کرنے کے لئے زیادہ پرعزم بناتی ہے۔
الحائق نے کہا کہ کھلاڑی شامی عوام کا حصہ ہیں جنہوں نے یکجا ہوکر اپنے مسائل پر قابو پایا ہے۔ اگر ہمارے پاس بیرونی تربیتی کیمپ نہیں ہیں تو بھی ہم ملک میں تربیتی کیمپ بناتے ہیں ۔ ہمارے پاس بین الاقوامی میدانوں میں اپنے ملک کا پرچم لہرانے کی قوت موجود ہے۔