کراچی(کورٹ رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس امجد علی سہتو نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیادتی کے کیسز میں نا تو تفتیش ہوتی ہے اور نا ہی شناخت پریڈ۔ سندھ ہائی کورٹ میں زیادتی کیس کے ملزم ناظم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔عدالتی حکم پر آئی جی سندھ رفعت مختار پیش ہوئے۔جسٹس امجد علی ستہو نے کہا کہ آئی جی صاحب 15 سال جو تباہی سندھ میں ہوئی ہے کہیں نہیں ہوئی، معلوم نہیں 6 مہینے بعد آپ کہاں ہوں گے مگر جاتے جاتے سندھ کے عوام پر احسان کر جائیں، تفتیشی افسر کو تفتیش کے لیے ایک ہاتھ سے چیک دیا جاتا ہے، دوسرے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے، تفتیشی افسران کہتے ہیں ہمیں فنڈز ہی نہیں ملتے تفتیش کے لیے پیسہ جیب سے کیوں لگائیں۔جسٹس امجد علی سہتو نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے لیے فنڈز ہر ضلع کو دینے کے بجائے براہ راست تھانے کو کیوں نہیں دیے جاتے؟ تھانے کو تفتیش کے لیے پیسہ دیں گے تو ان سے جواب طلبی بھی ہو گی، سندھ کے لوگوں کی آپ پر نظر ہے۔آئی جی سندھ رفعت مختار نے عدالت کو بتایا کہ دو چار مہینے بعد سندھ میں چیزیں تبدیل ہوتی نظر آئیں گی، پولیس میں مانیٹرنگ کا میکنزم بنا دیا ہے، فنڈز کی مانیٹرنگ بھی میں خود کروں گا۔ جسٹس امجد ستہو نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں تفتیشی افسر سے پوچھا ملزم کو کیوں گرفتار کیا؟ تفتیشی افسر نے کہا اس کا بڑا بھائی ڈاکے مارتا تھا اس لیے اس کو بھی گرفتار کیا، ہر محکمے میں 5 ہزار میں سے 2 ہزار ڈیوٹی پر ہوتے ہیں باقی بیرون ملک ہیں، کوئی ویزا لے کر لندن چلا جاتا ہے کوئی پیرس چلا جاتا ہے، کراچی میں تو پھر بھی تفتیشی افسران کچھ نہ کچھ کر لیتے ہیں، کراچی میں چھالیہ والا بھی پولیس کو دو کروڑ دے دیتا ہے، شکار پور، کندھ کوٹ، کشمور میں تو چھالیہ والا نہیں، عدالت ملزمان کے خلاف فائل ٹٹولتی رہ جاتی ہیں، کہیں شواہد ہی نہیں ملتے، ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتے ہیں ملزمان کے خلاف عدالت میں شواہد پیش نہیں کیے جاتے، جب ملزم چھوٹ جاتے ہیں تو دوسرے دن بیان آتا ہے کہ ہم ملزم پکڑتے ہیں عدالت چھوڑ دیتی ہے، کیا کریں جب شواہد ہی نہیں آتے تو ملزمان کو کیسے جیل میں رکھیں۔آئی جی سندھ رفعت مختار نے کہا کہ مجھے سندھ میں 20 دن ہوئے ہیں بہت ساری چیزیں سمجھ آئی ہیں۔