کراچی ( نمائندہ خصوصی)
وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائمقام وائس چانسلر اور اور نااہل انتظامیہ نے مالی بحران اور تنخواہوں و دیگر ادائیگیوں میں مشکلات کو جواز بناتے ہوئے گزشتہ ماہ سمسٹر فیسوں میں یک مشت 50 فیصد کا اضافہ کر دیا، جسے طلبہ ایکشن کمیٹی نے مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر احتجاج آغاز کر دیا تفصیلات کے مطابق
وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائمقام وائس چانسلر اور اور نااہل انتظامیہ نے مالی بحران اور تنخواہوں و دیگر ادائیگیوں میں مشکلات کو جواز بناتے ہوئے گزشتہ ماہ سمسٹر فیسوں میں یک مشت 50 فیصد کا اضافہ کر دیا، جسے طلبہ ایکشن کمیٹی نے مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر احتجاج آغاز کر دیا۔جبکہ قائمقام وائس چانسلر اور نااہل انتظامیہ نے یونیورسٹی قانون ۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت تعلیم کے احکامات کی خلاف ورزی کرتےہوئے سینکٹروں غیر قانونی بھرتیاں کرکے کروڑوں روپے کی دیہاڑی لگالی ۔زرائع کے مطابق قائمقام وائس چانسلر کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت تعلیم کےکرپٹ مافیا کی آشیرباد سے وفاقی اردو یونیورسٹی میں مالی بے ضابطگییاں ہو رہی ہیں جبکہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے کی وجہ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ عوام کی یونیورسٹی فیس دینا مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن گیا ہے دوسری جانب طلبہ ایکشن کمیٹی کے احتجاج کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ کو ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کر دیا گیا۔ طلبہ قائدین نے اپنی تقاریر میں تنخواہوں میں اضافہ کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نہ صرف فیسوں میں ہوشربا اضافہ واپس لیا جائے بلکہ یونیورسٹی کے مالی مسائل کو اضافے کا سبب بننے والے غیر قانونی تقررات، مستقلیوں اور ترقیوں کو بھی روکا جائے۔ احتجاج کی دوران قائم مقام شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے طلباء کو یقین دہانی کروائے کہ فیسوں میں اضافے کے اس فیصلہ پر دوبارہ غور کیا جائے گا جس پر طلبہ ایکشن کمیٹی نے اپنے احتجاج کو مؤخر کردیا۔ گزشتہ ہفتہ اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں ایک بار پھر فیسوں میں اضافہ کے فیصلہ کو برقرار رکھا گیا جسے وعدہ خلاف قرار دیتے ہوئے طلبہ ایکشن کمیٹی نے دوبارہ احتجاج کا راستہ اختیا رکیا۔6 ستمبر بروز بدھ طلبہ ایکشن کمیٹی نے یونیورسٹی کی اندر کلاسز کا بائیکاٹ کیا اور انتظامی بلاک کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اس احتجاج میں طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور فیسوں میں اضافہ کو واپس لینے کے نعرے لگائے گئے۔ احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ ایکشن کمیٹی کے قائدین نے کہا کہ اگر یونیورسٹی اپنے اخراجات کو پورا نہیں کرپارہی تو اس مہنگائی کے دور میں اس کا خمیازہ غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیوں بھریں؟ طلبہ قائدین کا کہنا تھا کہ ایک طرف یونیورسٹی مالی بحران کا جواز بنا کر فیسوں میں اضافہ کررہی ہے تو دوسری طرف موجودو قائم مقام وائس چانسلر سینٹ کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود اور ایمرجنسی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کے بغیر ہی نئی بھرتیوں، مستقلیوں اور غیر قانونی ترقیوں میں مصروف ہیں جس سے یونیورسٹی کا مالی خسارہ مزید بڑھے گا اور خدشہ ہے کہ اس کا بوجھ بھی غریب کی فیسوں میں اضافہ کی صورت میں طلبہ پر ڈالا جائے گا۔ طلبہ قائدین نے اعلان کیا کہ موجودہ قائم مقام انتظامیہ کی شاہ خرچیوں کو اجاگر کیا جائے گا اور تقرریوں اور ترقیوں جیسے غیر قانونی اقدامات کو وفاقی محتسب سمیت تمام قانونی و دیگر فورمز پر چیلنج کیا جائے گا اور صدرِ پاکستان، وفاقی وزیر تعلیم اور ایچ ای سی سمیت تمام اتھارٹیز تک شکایات پہنچائی جائ گی۔ احتجاج کے آخر میں طلبہ ایکشن کمیٹی نے متفقہ طور پرطے کیاکو یہ احتجاج روزانہ کی بنیاد پر کیا جائے گا اور فیسوں میں اضافہ واپس لینے تک کلاسوں کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔ اگر قائم مقام وائس چانسلر فیسوں میں اضافے کے بجائے اپنی شاہ خرچیاں اور غیر قانونی اقدامات کو نہیں روکتے تو احتجاج میں شدت آئے گی۔