ہانگ ژو(شِنہوا)چین کے شہربیجنگ سے تعلق رکھنے والی وانگ وین جوان 23 ستمبر سے 8 اکتوبر تک چین کےمشرقی صوبہ ژی جیانگ کے دارالحکومت ہانگ ژو میں منعقد ہونے والی آئندہ 19ویں ایشیاڈ (ایشین گیمز) کی افتتاحی تقریب کابےتابی سےانتظارکر رہی ہیں۔
34 سالہ نوجوان خاتون کے مطابق وہ سپورٹس گالا کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتی ہیں کیونکہ انکا عرفی نام "پان پان” ہے۔ "پان پان” بیجنگ میں منعقدہ گیارہویں ایشیائی کھیلوں کے علامتی مجمسے کا نام تھا جب پہلی بار چین نے ایک جامع بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے کی میزبانی کی تھی۔
ان کا خیال ہے کہ "پان پان” سے لے کر ہانگ ژو ایشین گیمز کے تین روبوٹک علامتی مجسموں (میسکوٹس) تک کھیلوں کی یہ علامتیں چین کے ابھرتے ہوئے منظرنامے کی عکاس ہیں۔
وین جوان کے والد وانگ لونگ اب بھی واضح طور پر اس پرجوش لمحےکو یاد کرتے ہیں جو انہوں نے چین کی ایشین گیمز کی میزبانی کرنے کی خبرسن کرمحسوس کیا ۔ وانگ نے کہا کہ مختلف مواقع پر علامتی مجسمے کے نام کا کثرت سے ذکر کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب ان کی بیٹی بیجنگ ایشیاڈ سے ایک سال قبل 1989 میں پیدا ہوئی تو انہوں نے اس کا نام "پان پان” رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سونے کا تمغہ تھامے خوبصورت پانڈا پر مبنی علامتی مجمسہ "پان پان” تیزی سے وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ اور محبوب علامت بن گیا جو اس وقت چین میں ہر جگہ نظر آتا تھا۔اس نام کا لفظی مطلب ہے "توقع” جس نے اصلاحات اور کھلے پن کے اس دور میں چینی عوام کے جذبات کو مناسب طریقے سے اجاگر کیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس وقت ان کی کیا توقعات تھیں تو 61 سالہ وانگ نے فوراً جواب دیا: "ایک بہتر زندگی۔”
اس وقت وہ شینزین میں رہائش پذیر تھےجو چین کےجنوبی صوبہ گوانگ ڈونگ میں واقع ایک ایسا شہر ہے جو ایک چھوٹے سے ماہی گیری کے گاؤں سے ملک کے پہلے اور سب سے کامیاب خصوصی اقتصادی زون میں تبدیل ہوا ہے۔
1990 میں وانگ نے پیناسونک برانڈ کا اپنا پہلا رنگین ٹیلی ویژن خریدا تاہم اپنی مصروفیات زندگی کی وجہ سے انہیں کبھی کبھار ہی ایشیاڈ مقابلوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ کھیلوں کے ان مقابلوں سےبہت متاثرہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ ایشیاڈ سے پہلے میں نے غیر ملکی لوگوں کو شاذ و نادر ہی دیکھا تھاجس نے انہیں چین کا دورہ کرنے اور حقیقی چین کے بارے میں جاننے کی طرف راغب کیا جبکہ اس کے بعد ہماری زندگی میں بہت بہتری آئی۔